نئی دہلی: (ویب ڈیسک) مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کے بعد بھارتی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا اور اکنامک کا جنازہ نکل رہا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی صورت حال سے بھارتی معیشت پر بھی برے اثرات پڑے ہیں اور مودی سرکار کے پالیسی تھنک ٹینک کے مطابق بھارت کو جس اقتصادی سست روی کا سامنا ہے اسکی مثال پچھلے 70 سال میں نہیں ملتی۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس سال یکم اپریل سے 15 اگست تک کے درمیان براہ راست ٹیکس ریونیو میں زبردست کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ شرح کم ہو کر 4.7 فیصد ہو گئی حالانکہ اس سال کی دوسری سہ ماہی میں یہ شرح 9.6 فیصد تھی اور مطلوبہ شرح تو 17.3 فیصد ہے۔
پالیسی تھنک ٹینک نیشنل انسٹیٹیوشن فار ٹرانسفارمنگ انڈیا کے وائس چیئرمین راجیو کمار کا کہنا ہے کہ بھارت کو اس وقت جس اقتصادی سست روی کا سامنا ہے اسکی مثال پچھلے 70 سال میں نہیں ملتی۔
راجیو کمار کا کہنا ہے کہ پورا مالیاتی شعبہ خراب صورت حال سے دو چار ہے اور کوئی بھی کسی پر اعتماد نہیں کر رہا۔ پرائیویٹ سیکٹر میں اس وقت کوئی کسی پر اعتماد نہیں کر رہا اور نہ ہی کوئی قرضے دینے کو تیار ہے
دوسری جانب امریکا کے آزاد مالیاتی ادارے جیفریز کے ایکویٹی اسٹریٹجیز شعبے کے گلوبل ہیڈ اور معروف تجزیہ کار کرس ووڈ نے بھی موجودہ سیکیورٹی صورت حال کے پیش نظر بھارت کی اقتصادی صورتحال مزید خراب ہونے کی پیش گوئی کر دی۔
انہوں نے اپنے نیوز لیٹر گریڈ اینڈ فیئر Greed and Fear میں انہوں نے بھارت کے ایسیٹ ایلوکیشن پورٹ فولیو میں ایک فیصد کی کمی کی ہے جو اب 16 فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد پر آ گئی ہے۔
کرس ووڈ کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال نے بھی بھارتی معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی خرابی اقتصادی صورتحال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُسکی قومی فضائی کمپنی ائیر انڈیا تقریباً 7 ماہ سے فیول کی مد میں واجبات ادا نہیں کر سکی اور واجب الادا رقم ساڑھے 4 ہزار کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔
اس صورت حال میں ائیر انڈیا کو فیول فراہم کرنے والی کمپنیوں نے اُسے 6 ائیر پورٹس پر جیٹ فیول کی فراہمی روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارتی ویب سائٹ کے مطابق مجموعی طور پر اس وقت ائیر انڈیا پر 58 ہزار کروڑ روپے کا قرضہ ہے۔
بھارت کے مرکزی مالیاتی ادارے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے بھی ملکی معیشت میں سست روی کو انتہائی حد تک باعث تشویش قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، میرا ماننا ہے کہ معیشت میں سست روی یقینی طور پر بہت ہی تشویش ناک ہے۔ آپ ہر طرف دیکھ سکتے ہیں کہ کمپنیاں فکر مند ہیں۔ نئی اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن بین الاقوامی منڈیوں سے قرض لینے سے کوئی سدھار تو ممکن نہیں مگر صرف وقتی بہتری ہی آ سکتی ہے۔
بھارت کی فیڈریشن آف آٹو موبائل ڈیلرز (فاڈا) کے مطابق گزشتہ تین ماہ یعنی مئی سے جولائی کے درمیان گاڑیاں فروخت کرنے والے تاجروں نے اپنے تقریباً دو لاکھ ملازمین فارغ کر دیے۔ فاڈا کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں کسی بہتری کی کوئی گنجائش نظر نہیں آ رہی۔ مستقبل میں مزید ملازمتیں ختم ہونے سے بہت سو شو رومز بند ہو سکتے ہیں۔ فاڈا کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 18 ماہ میں 271 شہروں میں 286 آٹو موبائل شورومز بند ہو چکے ہیں۔ کاروں کی فروخت میں 31 فیصد کمی ہو چکی ہے جو گزشتہ 19برسوں کی سب سے اونچی شرح ہے۔
بھارت میں اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حالت بھی نہایت خراب ہے۔ اس شعبے سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر دس کروڑ افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ لیکن ملک بھر میں ایک تہائی اسپننگ ملیں بند ہو چکی ہیں اور جو چل رہی ہیں، وہ بھی خسارے میں ہیں۔ ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن آف انڈیا نے پچھلے دنوں ملک کے متعدد قومی اخبارات میں ایک اشتہار شائع کروا کر مودی حکومت کی توجہ اس تشویش ناک صورت حال کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اب تک 25 لاکھ سے 50 لاکھ تک ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔
معیشت میں سست روی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید پر بھی کافی اثر پڑا ہے۔ دیہی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ بسکٹ تیار کرنے والی ایک 90سال پرانی اور سب سے بڑی کمپنی پارلے نے اسی سست روی کی وجہ سے اپنے دس ہزار سے زائد ملازمین کو ملازمتوں سے نکال دینے کا عندیہ دیا ہے۔ کمپنی نے ایک بیان میں کہا کہ بالخصوص دیہی علاقوں میں بسکٹ کی فروخت بہت کم ہو جانے کی وجہ سے کمپنی اپنی پیداوار کم کر سکتی ہے اور ایسا ہونے پر بڑی تعداد میں ملازمین کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔
پارلے اپنے بسکٹوں کا ایک پیکٹ صرف پانچ روپے میں فروخت کرتی ہے، جو کہ دیہی علاقوں میں بہت مقبول ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے بسکٹوں کی فروخت میں سات سے آٹھ فیصد تک کی کمی ہو چکی ہے۔ بھارت ہی میں بسکٹ تیار کرنے والی ایک اور بہت بڑی کمپنی برٹانیہ کا کہنا ہے کہ لوگ اب پانچ روپے کا بسکٹ کا پیکٹ خریدنے سے پہلے بھی دو مرتبہ سوچتے ہیں۔
برآمدات کے محاذ پر بھی اس وقت بھارت کی صورت حال اچھی نہیں ہے۔ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کی ایک رپورٹ کے مطابق اپریل سے جون 2018 کے درمیانی عرصے میں بھارت نے 1064 ملین امریکی ڈالر کہ مصنوعات برآمد کی تھیں۔ لیکن اس سال کے اسی عرصے میں ملکی برآمدات کی مالیت بہت زیادہ کمی کے بعد 695 ملین ڈالر رہ گئی تھی۔ گویا برآمدات میں 35 فیصد کی کمی ہوئی۔
اس تشویش ناک صورت حال کے مدنظر وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے ساتھ صلاح مشورے بھی کیے تھے۔ انہوں نے بے تحاشا ملازمتوں کے ختم ہو جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خزانہ کو اقتصادی سست روی کے اسباب کا تفصیلی جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔