لندن: (ویب ڈیسک) خلیج فارس میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد برطانیہ نے اپنے جنگی بحری جہاز کو امریکا کی زیر نگرانی بحری مشن میں شمولیت کے لیے روانہ کر دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ خلیج فارس کے تجارتی راستوں کو محفوظ بنایا جا سکے اور اس کے لیے امریکی میری ٹائم مشن میں شمولیت اختیار کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ ایرانی آئل ٹینکر کو فوری چھوڑ دے : تہران کی دھمکی
اس سے قبل جرمنی سمیت کئی دیگر امریکی اتحادی ممالک مشن میں شمولیت سے انکار کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی آئل ٹینکر کو قبضے میں لینے کی ویڈیواور آڈیو ریکارڈنگ جاری
ایران اور برطانیہ کے مابین کشیدگی کا آغاز جولائی کے مہینے میں اس وقت ہوا تھا جب برطانوی حکام نے جبرالٹر میں ایک ایرانی آئل ٹینکر کو قبضے میں لے لیا تھا۔ اس کے جواب میں تہران نے بھی آبنائے ہرمز میں برطانوی پرچم لگے دو آئل ٹینکروں کو قبضے میں لے لیا تھا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار نے اس معاملے پر ایران میں تعینات برطانوی سفیر سے ملاقات کی اور اس واقعے کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا۔ سپریم کونسل کے ممبر آف کونسل محسن رضائی نے دھمکی دی ہے کہ کہ اگر برطانیہ یہ ٹینکر رہا نہیں کرتا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور برطانوی آئل ٹینکر کو بھی روکا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ نے ایرانی آئل ٹینکر چھوڑنے پر مشروط آمادگی ظاہر کر دی
یاد رہے کہ برطانیہ کی جانب سے جب کارروائی کی گئی اس وقت آپریشن میں 30 میرینز اور 42 کے قریب کمانڈوز نے حصہ لیا اور ایرانی آئل ٹینکر کو قبضہ میں لے لیا۔
گریس ون نامی تیل بردار بحری جہاز کو آبنائے جبرالٹر سے قبضہ میں لیا گیا ہے۔ جبرالٹر نامی جزیرہ سپین کے ساحل کے قریب واقع ہے جو برطانیہ کے زیر تسلط ہے۔ برطانوی حکومت کے اقدام پر ایران نے برطانوی سفیر کو طلب کرکے شدید احتجاج کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران اور برطانیہ آمنے سامنے، خلیج فارس میں جھڑپ ہوتے ہوتے رہ گئی
برطانیہ کا موقف تھا کہ بحری جہاز شام کے لئے خام تیل لے جا رہا تھا جس پر یورپی یونین نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ایرانی دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت کا اقدام غیر قانونی اور تباہ کن ہے۔
ادھر ہسپانوی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے امریکا کے کہنے پر ایرانی بحری جہاز کو سپین کی سمندری حدود سے قبضہ میں لیا، اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔