دوحہ: (ویب ڈیسک) امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آٹھواں دور قطر میں شروع ہو گیا ہے۔ افغانستان میں امن کیلئے دونوں فریق اس بات چیت کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا اور طالبان کے درمیان 18 سالہ جنگ کا اختتام قریب پہنچ رہا ہے، قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے آٹھویں مذاکرات کے دوران امید کی جا رہی ہے دونوں فریق کسی امن معاہدے پر پہنچ جائیں گے۔
امریکا کی طرف سے مذاکرات کی نمائندگی زلمے خلیل زاد کر رہے ہیں جو حالیہ عرصے میں افغانستان اور پاکستان سے ہوتے ہوئے دوحہ پہنچے ہیں، قطر پہنچتے ہی انہوں نے ٹویٹر پر کہا تھا کہ امریکا طالبان کے ساتھ امن ڈیل کو طے کرنے کی کوششوں میں ہے اور فوجیوں کے انخلا کی ڈیل نہیں ہو گی۔
همدا اوس دوحې ته راورسېدم چې د طالبانو سره خبرې بيا پيل کړم. موږ د سولې يوه داسې هوکړه غواړو چې له مخه یې د ځواکونو وتلو ته زمینه برابره شي. په افغانستان کې زموږ شتون د شرایطو له مخې دی او وتل به مو هم شرایطو ته په کتو وي.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) August 3, 2019
ٹویٹ میں زلمے خلیل زاد نے واضح کیا کہ امن معاہدے میں امریکی فوج کے انخلا کا عمل بھی شامل ہو گا اور افغانستان میں امریکی موجودگی کی شرائط کو بھی شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے افواج کے انخلا کو مشروط قرار دیا ہے۔ طالبان بھی امن معاہدے پر دستخط کرنے کے اشارے دے چکے ہیں۔ ہم بھی اچھے معاہدے کیلئے بالکل تیار ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دونوں فریقوں میں امن سمجھوتے کے طے پانے کا امکان 13 اگست تک ہو جائے گا۔ طالبان می طزف سغ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ضمانتیں دی جائینگی اور کہا جائے گا ایک بہتر امن ڈیل کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
طالبانو داسې اشارې ښودلي چې غواړي هوکړه نهايي شي. موږ يوې ښې هوکړې ته چمتو يو.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) August 3, 2019
سینیئر امریکی اہلکاروں کا بھی خیال ہے کہ اس مرحلے میں فریقین کسی امن معاہدے پر متفق ہو سکتے ہیں، جس سے 18 سالہ جنگ کے خاتمے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔ معاہدہ کی صورت میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا نظام الاوقات کا اعلان ممکن ہے۔
مذاکرات کا یہ نیا دور ایسے وقت پر شروع ہو رہا ہے جب واشنگٹن پوسٹ اور سی این این نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ واشنگٹن حکومت افغانستان سے اپنے ہزاروں فوجیوں کی واپسی کی تیاریوں میں ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں کمی کر کے اسے 14 ہزار سے 8 سے 9 ہزار کے درمیان کیا جا رہا ہے۔