لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) افغان حکام اور افغان طالبان کے درمیان ڈیڈ لاک ٹوٹ گیا۔ افغانستان کے سیاستدانوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں کا 50 رکنی وفد طالبان کی مذاکراتی ٹیم سے ملاقات کر رہا ہے۔ ملاقات کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان افغان انتظامیہ سے مذاکرات کے حق میں نہیں تھے اور اشرف غنی طالبان سے ملاقات سے انکاری تھے۔ بہر حال تازہ پیشرفت یہی ہے کہ براہ راست اشرف غنی کی حکومتی ٹیم کے لوگ تو اس ملاقات میں شامل نہیں ہیں مگر افغان سیاسی اشرافیہ اور متعدد وار لارڈز اس ملاقات میں شریک گفتگو ہیں۔ یہ عمل امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کا حصہ ہے ۔ جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ افغان طالبان ، افغانستان کی دیگر سیاسی قوتوں اور سول سوسائٹی میں برف پگھلنا شروع ہو چکی ہے۔
لہٰذا یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ اب طالبان اور افغان سیاسی اشرافیہ کے درمیان مذاکراتی کوششیں کامیاب ہونگی ؟ اور اس کا دائرہ کار کابل انتظامیہ تک دراز ہوگا ؟ امن عمل کب تک نتیجہ خیز ہوگا ؟ امریکی افواج کا انخلا ممکن بن پائے گا ؟ کیا پاکستان افغانستان میں امن کیلئے سہولت کاری کے فرائض ادا کر کے سرخرو ہو سکے گا۔ افغان امن عمل کے سلسلے میں واقعتا اب لگنا شروع ہو چکا ہے کہ یہ بیل اب منڈے چڑھے گی۔ لازمی طور پر اس میں بنیادی کوشش تو خود امریکہ کی ہے جس نے اس خواہش کو اپنا مرکزی نقطہ بنایا کہ اب اسے افغانستان سے چلے جانا چاہیے،ظاہر ہے باقی کے حالات اس کے بعد پیدا ہوئے۔
لازمی طور پر اس امن عمل کے پیچھے افغان طالبان کی ثابت قدمی اور مسلسل پیشقدمی ہے جس نے عملاً کابل انتظامیہ کو ناکامی سے دو چار کر رکھا ہے۔ اور پھر یہیں سے پاکستان کا افغانستان میں کمزور ہوتا کردار دوبارہ زندہ ہو گیا اور دھمکیوں پر اترا ہوا امریکہ اب پاکستان کے کردار کو تسلیم بھی کر رہا ہے اور جوابی اقدامات بھی کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان مذاکرات میں حتمی اور اہم پیشرفت تو تب ہو گی جب طالبان تمام افغان سیاسی قوتوں بشمول کابل میں اشرف غنی انتظامیہ کے ساتھ بیٹھ کر آئندہ کے سیاسی منظر نامے پر کسی حتمی ڈیل تک پہنچیں گے، یہ لمحہ اب ہر صورت ممکن بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے افغان نمائندہ جماعتوں کا ایک اہم ترین دور بھوربن میں پاکستان کی سفارتی ٹیم سے ہوا، اس کے بعد افغان صدر اشرف غنی اچانک پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ اشرف غنی کے دورہ کو اس تناظر میں دیکھنا چاہئے اور امریکہ بھی جانے کے بعد موجودہ انتظامیہ کا سیاسی کردار دیکھنا چاہتا ہے مگر افغان طالبان کے عزائم اپنی اہمیت اور پیشقدمی کے تناظر میں بہت بڑے ہیں۔ اور پاکستان اس سارے عمل میں ایک اہم ترین سہولت کار کے ساتھ ساتھ ایک افغان ہمسایہ ملک بھی ہے۔
اشرف غنی کے دورے کے بعد افغان طالبان نمائندہ افغان سیاسی قوتوں کے ساتھ مل بیٹھے ہیں ظاہر ہے اس سے اعتماد بڑھے گا، ان قوتوں کے درمیان فاصلے سمٹیں گے اور ایک دوسرے کو سیاسی میدان کے کھلاڑی سمجھنے اور برداشت کرنے کی خواہش پیدا ہوگی اور اس کے نتائج کا اصل پتا تب چلے گا جب طالبان کسی تیسری جگہ یا دو حہ میں موجود افغان انتظامیہ سے ملیں گے۔ صورتحال اس جانب جا رہی ہے۔ اس لئے امریکہ نے اس اہم ترین موڑ پر پاکستان کا دیرینہ موقف تسلیم کیا اور پاکستان کے صوبے بلوچستان میں علیحدگی کی اہم ترین جماعت بلوچ لبریشن آرمی (BLA) پر پابندی لگائی اور اسے دہشت گرد جماعتوں کی لسٹ میں شامل کر دیا۔ یہ در حقیقت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں جمی برف پگھلنے کے مترادف ہے۔
اس صورتحال میں ڈرامائی پیشرفت یوں ہوئی کہ وزیراعظم پاکستان کے دورہ امریکہ، امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کا شیڈول آ گیا۔ یہ صورتحال ہمیں افغانستان میں کسی حتمی ڈیل یا معاہدہ کے قریب لے کر جاتی نظر آ رہی ہے۔ اب امریکہ چونکہ اپنے آئندہ انتخابات کی جانب جاتا دکھائی دے رہا ہے اور صدر ٹرمپ کا انتخابی نعرہ افغانستان سے انخلا تھا۔ امریکی انخلا ان انتخابات سے پہلے شروع ہو جائیگا اور اگر یہ کلی طور پر نہ ہوا تو پھر جزوی انخلا ضرور ہوگا۔ اور اس سے پہلے افغان امن معاہدہ بھی منظر عام پر آ جائے گا جس میں انخلا کی تاریخ، اشرف غنی کا مستقبل اور سب سے بڑھ کر افغانستان کے طالبان کا واضح سیاسی کردار اس میں طے ہوگا۔ اس معاہدے کے لازمی طور پر ضامن امریکہ، پاکستان، سعودی عرب اور قطر ہونگے۔ اگر یہ سب کچھ اسی سال 2019 میں ہو گیا تو پھر پاکستان کی داخلی سلامتی کیلئے یہ اہم ترین فتح ہوگی۔