جرمنی: کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی

Last Updated On 31 October,2019 05:36 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں کیڑوں مکوڑوں سے جان چھڑانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں تاہم حیران کن طور پر یورپ کے سب سے بڑے ملک جرمنی میں کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں شدید کمی ہوئی ہے جہاں ایک طویل المدتی جائزہ کو ایک ’خطرناک‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق کیڑے مکوڑوں سے متعلق سامنے آنے والے طویل المدتی جائزے کو ایک بم قرار دیا جا رہا ہے۔ تیس برسوں کے دوران ملک میں اڑنے والے کیڑوں کی تعداد میں تین چوتھائی کمی واقع ہوئی ہے۔

جرمن شہر کریفیلڈ کی اینٹیومولوجیکل سوسائٹی نے ایسی ہی تحقیق اکتوبر 2017ء میں شائع کی تھی لیکن میونخ کی مشہور ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ارضی ماحولیات کے سائنسدانوں نے بھی امر کی تصدیق کر دی ہے۔ سائنسدانوں کی تحقیق 30 اکتوبر کو مشہور جرنل نیچر میں شائع ہوئی ہے۔

سائنسدانوں نے 2008ء سے 2017ء تک باقاعدگی سے جرمنی کے 3 مختلف حصوں میں پائے جانے والے کیڑے مکوڑوں کا مشاہدہ جاری رکھا۔ اڑنے والے کیڑے مکوڑوں کے ساتھ ساتھ دیگر حشرات اور مکڑیوں کا بھی مشاہدہ کیا گیا۔

خبر رساں ادارے کے مطابق کیڑے مکوڑوں کی تعداد سے متعلق کی جانے والی مفصل تحقیق کے لیے مجموعی طور پر ملک کے 3 بڑے حصوں میں واقع 290 مقامات پر پائے جانے والے جنگلات اور سرسبز علاقوں کا جائزہ لیا گیا۔

تحقیق کے دوران تقریباً ایک ملین کیڑے مکوڑوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا اور حشرات کی 2700 سے زائد اقسام کا جائزہ لیا گیا۔ تحقیق کے مطابق تقریباً دس برسوں کے دوران ہی کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے۔

جرمنی کی وفاقی وزیر ماحولیات سوینیا شولسے نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورتحال کس قدر گھمبیر ہے۔ زراعت کی بقاء میں کیڑے مکوڑوں کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں شامل پروفیسر زائیبولڈ کا کہنا تھا کہ صرف خاص علاقوں پر توجہ مرکوز کرنے اور وہاں کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں اضافے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا، ان کی کمی کو روکنے کے لیے نہ صرف علاقائی بلکہ قومی سطح پر مربوط رابطوں اور منصوبہ سازی کی ضرورت ہے۔

جرمنی میں کسانوں کی تنظیم کے صدر یوآخم روکویڈ کا کہنا تھا کہ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے کسانوں کو اس کا حصہ بنانا لازمی ہے۔ زراعت کا تو انحصار ہی مکھیوں اور کیڑے مکوڑوں کی وجہ سے ہونے والی پولینیشن پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسانوں کی ایسوسی ایشن ماحول کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر تعاون کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر کسان کچھ قابل کاشت علاقہ دوبارہ فطرت کے حوالے کر رہے ہیں۔ رواں برس رضاکارانہ طور پر کسانوں نے ملک بھر میں فصلوں کے قریب پھولوں کی لائنیں اگائی ہیں تاکہ کیڑے مکوڑوں کی افزائش ہو اور انہیں کھانا مل سکے۔ ملک بھر میں پانچ میٹر چوڑی ایسی پٹیوں کی لمبائی 2 لاکھ 30 ہزار میٹر سے بھی زائد تھی۔ یہ اتنے پھول تھے کی زمین کے گرد چھ لائینیں بنائی جا سکتی ہیں۔

دوسری جانب تحفظ ماحول کے کارکن ہر قسم کی کیڑے مار ادویات پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح کیمیائی مادے گلیفوسیٹ پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔