نیویارک: (روزنامہ دنیا) دو سالہ پاکستانی نژاد امریکی بچی کی جان بچانے کیلئے خون کے ایک نایاب گروپ کی ضرورت ہے جس کی دنیا بھر میں تلاش شروع کر دی گئی ہے۔
کینسر کے مرض میں مبتلا زینب مغل کو بڑی مقدار میں خون کی ضرورت ہے اور اس کا خون کا گروپ دنیا کا نایاب ترین گروپ ہے۔ اب تک ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کا گروپ ٹیسٹ کیا گیا ہے لیکن صرف تین لوگ ایسے ملے ہیں جن کا یہی گروپ ہے، دو عطیہ کنندگان امریکہ جبکہ ایک برطانیہ سے ملا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں زینب کے علاج کیلئے سات سے دس عطیہ کنندگان کی ضرورت ہے۔ زینب کو نیوروبلاسٹوما نامی مرض ہے جو خاص طور پر بچوں کو نشانہ بناتا ہے۔ جب تک زینب کا علاج چلتا رہے گا، اسے خون کی ضرورت پڑتی رہے گی۔
بچی کے خون کا گروپ ایسا ہے جو صرف پاکستانی، بھارتی یا ایرانی نژاد لوگوں میں پایا جاتا ہے تاہم ان ملکوں میں بھی صرف چار فیصد لوگوں کا یہی گروپ ہے۔
علاج سے زینب کی رسولی گھٹنا شروع ہو گئی ہے لیکن آگے چل کر ہڈی کے گودے کے ٹرانسپلانٹ کی بھی ضرورت پڑے گی۔ والد راحیل نے کہا کہ میری بیٹی کی زندگی کا انحصار خون پر ہے، عطیہ کنندگان زبردست کام کر رہے ہیں اور میں اسے کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔
آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ تمام خون کے گروپ انگریزی حروف تہجی اے، بی، اے بی اور او کے نام سے جانے جاتے ہیں لیکن یہ گروپ ایک شہر کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بی بی سی کے مطابق سب سے پہلے اس کی دریافت انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت بمبئی میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر وائی ایم بھینڈے نے 1952ء میں اسے دریافت کیا تھا۔
اب بھی اس گروپ کے زیادہ تر لوگ ممبئی میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ اس کا نسل در نسل منتقل ہونا ہے۔ بہر حال نقل مکانی کے سبب اب اس گروپ کے لوگ پورے ملک میں ملتے ہیں۔