لاہور: (محمد اشفاق) لاہور ہائیکورٹ نے زیر حراست ملزمان کے انٹرویوز، ٹریفک وارڈنز کو قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر شہریوں اور ڈی جی ایکسائز کو گاڑیاں روک کر شہریوں کی ویڈیو بنواکر وائرل کرنے سے روک دیا۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہاکہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو متعلقہ ڈویژن کے ایس پی کے خلاف کارروائی ہوگی، لاہور ہائیکورٹ میں زیر حراست ملزموں کے انٹرویوز کروانے کیخلاف وشال شاکر کی توہین عدالت کی درخواست پرسماعت ہوئی۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے عدالتی معاون محمد اشفاق کو صدر پریس کلب اور شاداب ریاض سے ملکر 29 اپریل تک جواب جمع کروانے کا حکم دیدیا، عدالت نے آئی جی پنجاب، ڈی جی ایکسائز اور سی ٹی او کو زیر حراست ملزموں کے انٹریوز کروانے سے روکتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو متعلقہ ایس پی کے خلاف کارروائی ہوگی۔
عدالت نے پولیس، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور ڈی جی ایکسائز سے پالیسی سے متعلق تحریری جواب طلب کر لیا، جسٹس علی ضیا باجوہ نےعدالتی معاون محمد اشفاق سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کیا کوئی صحافی کسی کو جواب دینے پر مجبور کر سکتا ہے؟ جس پر محمد اشفاق نے کہا صحافی کا کام سوال کرنا ہے اگر کوئی جواب نہیں دینا چاہتا تو اسکی مرضی ہے۔
سی ٹی او نے عدالت کو بتایا کہ میں نے میٹنگ میں جانا تھا لیکن اشفاق صاحب نے مجھے بات کرنے کے لئے روکا، محمد اشفاق نے سی ٹی او کو جواب دیا کہ آپ سے اس لئے بات کرنا چاہ رہے تھے کہ ٹریفک پولیس نے جو مثبت اقدامات اٹھائے وہ لوگوں کو پتہ چلنا چاہئیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے مؤقف اپنایا کہ محمد اشفاق سینئر کورٹ رپورٹر اور کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سڑک پر کھڑے ہوکر صحافی کسی سے پوچھ سکتا ہے کہ تم نے ہیلمٹ کیوں نہیں پہنا ؟
محمد اشفاق نے کہا کہ صحافی کو پروگرام کروانے کے لئے پولیس آفیسر خود بلاتے ہیں، کرائم رپورٹرز بھی ذمہ دار صحافی ہیں، پولیس آفیسر ملزموں کو پکڑ کر خود ساتھ تصویریں بنواتے ہیں، پراسکیوٹر جنرل نے کہا کہ مائی لارڈ یہ معاملہ ریٹنگ کا ہے، پولیس اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے کرتی ہے۔
عدالت میں نجی ٹی وی چینل پر زیر حراست ملزموں کے انٹرویوز کی ویڈیوز چلائی گئیں، عدالت نے ویڈیوز کے نازیبا تھمب نیل پر اظہار ناراضگی کیا، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس انٹرویو کا تھمب نیل دیکھیں ذرا؟ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے کہا کہ یہ قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے کہا کہ اگر یہ ملزم کوئی بیان دے دے تو پراسیکیوشن کے لئے مسئلہ ہو سکتا ہے، اگر کل کو یہ ملزم بری ہو جائے تو اس کے مستقبل کا کیا ہوگا، پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ ایسے انٹرویوز ناصرف ملزم بلکہ اس کے پورے خاندان کے لئے سزا ہیں۔
عدالت نے کہا کہ نیب کے قانون میں بھی یہی ہے کہ انکوائری اور تفتیش کی تفصیلات پبلک نہیں کی جائیں گی، قصور واقعہ میں یہ بات سامنے آئی کہ ایس ایچ او اس میں ملوث تھا، اس چیز کو حکومت اپنے طور پر دیکھ لے، اس کیس میں کوئی بھی کوتاہی نہ چھوڑیں، ایسا نہ ہو کہ کیس ختم ہو جائے اور ملزمان کو محفوظ راستہ دے دیا جائے، کیا ملزمان کی ویڈیو بنا کر اس کو ایکسپوز کرنا ضروری ہے، جو لوگ اشتہاری ہو چکے ہوں ان کی تصاویر ضرور چھاپیں۔
عدالت نے سی ٹی او لاہور کو ہدایت کی کہ آپ کی کسی ویڈیو سے لوگوں کی تضحیک نہیں ہونی چاہئے، عدالت نے کہا کہ اگر کسی اشارے پر کسی شہری کی تضحیک ہوئی تو اس علاقے کا ایس پی ذمہ دار ہوگا، سی ٹی او لاہور نے کہا کہ جو لوگ ہماری ویڈیوز بناتے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے۔
عدالت نے کہا کہ قانون میں موجود ہے آپ ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں، سی ٹی او نے کہا کہ سب سے زیادہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سرکاری اہلکار و افسران کرتے ہیں، ان کے چالان کی رقم ان کی تنخواہ سے کاٹی جانی چاہئے۔
عدالت نے کہا کہ ہر وہ قدم جس سے پالیسنگ بہتر ہو وہ سوشل میڈیا پر ہونی چاہئے، آپ عدالت کی معاونت کریں کہ میڈیا پر ملزم کو ایکسپوز کرنے سے فیئر ٹرائل کیسے متاثر ہوتا ہے، پراسیکوٹر جنرل نے کہا کہ پولیس کی طرف سے اب ایک عادت بن گئی ہے سب سے پہلے میڈیا والوں کو بلا کر انٹریو کرواتے ہیں، جب کیس عدالت میں آتا ہے تو پراسیکیوشن کا کیس کچھ اور ہوتا ہے انٹرویو کچھ اور۔
عدالت نے کہا کہ میڈیا، پولیس، پراسکیوٹر جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سب یہاں ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ غلط ہے، ایڈووکیٹ میاں علی حیدر نے کہا کہ اس سے پیسے اور ڈالر کمائے جاتے ہیں اس لئے ہو رہا ہے،عدالت نے کہا کہ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ انسانی جبلت ہے ہر انسان مشہور ہونا چاہتا ہے۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے پولیس کو 2 مئی تک تفتیش درست کرنے کی مہلت دے دی، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جان بوجھ کر متعلقہ ایس ایچ او کی ضمانت کروائی تاکہ وہ کسی اور کا نام نہ لے لے، لگتا ہے اس کیس میں آئی جی کو بلانا پڑے گا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آخری بار ایڈیشنل آئی جی نے بتایا تھا کہ ایس ایچ او اس میں ملوث تھا، ایس ایچ او ناصرف پولیس سٹیشن میں موجود تھا بلکہ ملزمان کے چہرے پر لائٹ مار رہا تھا، ایس ایچ او کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ایس ایچ او کی کوئی بری نیت نہیں تھی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ لڑکیوں کے منہ پر فلیش لائٹ مارنے کے پیچھے کیا اچھی نیت ہو سکتی ہے؟ قرآن میں ہے کہ گناہ گاروں کو ایکسپوز نہ کریں، ایس ایچ او کے وکیل نے بتایا کہ ڈی ایس پی اس وقت تھانے میں موجود تھا، اس کی ہدایت پر ویڈیو بنائی گئی۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایس ایچ او اسی دن نامزد کیا گیا تھا جس دن ایڈیشنل آئی جی انکوائری کمیٹی نے سربراہی کی، ان لوگوں نے جان بوجھ کر ایس ایچ او کی ضمانت کروائی، دوران سماعت پراسکیوٹر جنرل پنجاب نے بیان دیا کہ ہم نے پولیس کو لائن آف انکوائری لکھوائی ہے کہ ملزمان کے پاس جا کر ریکارڈ حاصل کریں۔
عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو ہدایت کی کہ آپ ڈی پی او قصور سے بات کریں اور پوچھیں کہ کیا ہو رہا ہے، آپ کو اس کیس میں ایکٹو ہونا پڑے گا، اس کیس میں ذہنی تشدد بہت واضح ہے، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے استدعا کی کہ پولیس کو ایک تاریخ دے دیں انکوائری کے لیے، اگر یہ تفتیش ٹھیک کرتے ہیں تو آئی جی پنجاب کی ضرورت نہیں۔