لاہور: (محمد اشفاق) لاہور ہائیکورٹ نے قصور ڈانس پارٹی سے گرفتار ملزموں کی ویڈیو بنانے اور وائرل کرنے پر ایس ایچ او، کانسٹیبل صادق اور کانسٹیبل ندیم کو توہین عدالت کے نوٹسزجاری کر دیئے۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے قرار دیا کہ جو کام پولیس اہلکاروں نے کیا ہے وہ کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے پولیس کے ٹک ٹاک بنانے پر پابندی کی استدعا کردی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے شہری وشال شاکر کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار وشال شاکر کی جانب سے ایڈووکیٹ میاں علی حیدر عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے زیر حراست ملزموں کی ویڈیو بنانے سے منع کر رکھا ہے، لہٰذا عدالت ڈی پی او قصور، متعلقہ ڈی سی پی اور ایس ایچ او کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے، دوران سماعت عدالتی حکم پر ڈی پی او قصور عیسیٰ سکھیرا، پراسکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ اورمتعلقہ پولیس افسران پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس علی ضیا باجوہ نے استفسار کیا کہ ڈی پی او صاحب آپ نے اس حوالے سے کیا کیا؟ ڈی پی او صاحب آپ نے پوچھا کہ پولیس اہلکاروں کی جرات کیسے ہوئی لڑکیوں کے بال کھینچ کر ویڈیو بنانے کی؟
ڈی پی او قصور عیسیٰ سکھیرا نے عدالت کو بتایاکہ یہ واقعہ بہت افسوسناک اور بد قسمتی کی بات ہے لیکن ہم نے متعلقہ پولیس اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کر دیا ہے، یہ کوئی نجی ایونٹ نہیں تھا، اس کی باقاعدہ سوشل میڈیا پر تشہیر کی گئی تھی۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہاکہ جو کام پولیس اہلکاروں نے کیا ہے وہ کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے، کیا آپ یقین دہانی کروا سکتے ہیں کہ دوبارہ آپ کے ضلع میں یہ نہیں ہو گا۔
ڈی پی او قصور نے بتایاکہ 48 گھنٹے میں میں نے اس واقعہ پر ایکشن لے کر پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا، صبح 5بجے تک خود بیٹھا رہا اور خود اس معاملے کی انکوائری کی، تفتیشی سب انسپکٹر اور دو کانسٹیبلوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتار کروایا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ متعلقہ ایس ایچ او ڈانس پارٹی منعقد کروانے والوں کے ساتھ رابطے میں تھا، ایس ایچ او نے ریڈ سے پہلے پارٹی منعقد کروانے والوں کو آگاہ کیا، موقع سے شراب کی بوتلیں منشیات اور دیگر اشیاء برآمد ہونے کے باوجود کمزور ایف آئی آر درج کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ کمزور ایف آئی آر کا فائدہ ملزموں کو ہوا جس کی وجہ سے مجسٹریٹ نے مقدمہ ڈسچارج کیا، اس لئے ایس ایچ او کو معطل کرکے برطرفی کے لئے سفارش آر پی او کو بھجوا دی۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے بتایا کہ ملزموں کی ویڈیوز بنا کر وائرل کرنے سے پولیس پراسیکیوشن کا کیس خراب کرتی ہے، پولیس کو قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ملزموں کی ویڈیو وائرل کریں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کا کام ملزموں کو جرم سے روکنا اور قانون کے تحت کارروائی کرنا ہے لیکن پولیس نے ایسا نہیں کیا، پولیس کے ٹک ٹاک بنانے پر پابندی لگائی جائے کیونکہ پولیس اہلکار ویوز کے لالچ میں اپنے فرائض چھوڑ دیتی ہے، یہ ڈسپلن فورس ہے۔
ڈی پی او قصور نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ میرے ضلع میں دوبارہ ایسا نہیں ہوگا، جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہاکہ اس سماعت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ڈانس پارٹی اور منشیات استعمال کرنے والوں کو کلین چٹ مل گئی۔
جسٹس علی ضیا باجوہ کا مزید کہنا تھا کہ پولیس ایسے افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے لیکن ملزموں کو پکڑ کر ان کی وٖیڈیو وائرل کرنا اس کی اجازت قانون نہیں دیتا اور اس حوالے سے عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
عدالت نے ڈی پی او سے کہا کہ آئندہ تاریخ کے لئے آپ اپنے ایس پی کی ڈیوٹی لگائیں آپ کو آنے کی ضرورت نہیں، جسٹس علی ضیا باجوہ نے پولیس کے ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی کے لئے آئندہ سماعت پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو طلب کرلیا۔
عدالت نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل عدالت کی معاونت کریں کہ کیا کسی ملک میں ملزموں کو ایسے ایکسپوز کرنے کا قانون ہے؟ عدالت نے مزید کارروائی ملتوی کردی۔