لاہور ہائیکورٹ نے تھانوں میں ملزمان کے انٹرویوز پر پابندی لگا دی

Published On 18 April,2025 03:43 pm

لاہور: (محمد اشفاق) لاہور ہائیکورٹ نے تھانوں میں ملزمان کے انٹرویوز پر پابندی لگا دی۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے وشال شاکر کی درخواست پر سماعت کی، عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ، ڈی آئی جی سکیورٹی اور قصور پولیس کے افسران پیش ہوئے۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے جواب جمع کروا دیا، جسٹس علی ضیا باجوہ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ کیا ملزمان کی حراست میں ویڈیو وائرل کرنا درست ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے کہا کہ دوران حراست ملزمان کی ویڈیوز بنا کر ان کو نشر کرنا اور ملزمان کے انٹرویو کرنا اس کی قانون اجازت نہیں دیتا، آئین کا آرٹیکل 14 شہریوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے جبکہ اس کے معاملہ پر عدالتی کارروائی سے پہلے ہی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے واقعہ کا سخت نوٹس لیا، وزیراعلیٰ مریم نواز نے ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی اور کمیٹی نے اپنی کارروائی مکمل کر لی ہے۔

دوران سماعت ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ نے انکوائری رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی، جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ آپ کی رپورٹ کے نتائج کیا ہیں جس پر ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ نے کہا کہ ایس ایچ او اور دو کانسٹیبلز اس سارے معاملے میں قصوروار پائے گئے ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ قصور واقعہ کے وقت تھانے میں جب ویڈیو بنی کیا تب ایس ایچ او تھانے میں موجود تھا؟ جس پر ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ نے بتایا کہ بالکل ایس ایچ او تھانے میں موجود تھا، جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ اس سے زیادہ ادارے کی تذلیل کیا ہو سکتی ہے، ایس ایچ او منہ پر لائٹیں مارنے والوں میں شامل تھا، مجھے حیرانگی ہے وہ آزاد پھر رہا ہے، شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، لوگوں کی ٹنڈیں کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی، یہ قانون کے منافی ہے، پری میچور اس طرح کی ویڈیو جاری ہونے سے ملزم اور مدعی دونوں کا کیس خراب ہوتا ہے، قانون کے مطابق انڈر کسٹڈی ملزمان کو میڈیا کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے کہا کہ کچھ بیرون ممالک میں جیوری کو ٹی وی دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو پولیس کی سوشل میڈیا پالیسی کو سپروائز کرنے کی ہدایت کر دی۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سوشل میڈیا پالیسی کے حوالے سے پولیس کو گائیڈ لائنز دیں، ایڈیشنل آئی جی میڈیا کو انٹرویو دینے کے حوالے سے گائیڈ لائنز جاری کریں، کوئی خاتون ہیں وہ کیمرہ اٹھا کر پولیس سٹیشن چلی جاتی ہیں، اسکے تھمب نیل ایسے ہوتے ہیں کہ انسان فیملی کے ساتھ بیٹھ کر وہ مواد نہیں دیکھ سکتا، اس طرح کا رویہ اور انٹرویوز پراسیکیوشن کے کیس کو خراب کرتا ہے۔

پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے کہا کہ سب سے پہلے اس طرح کی انٹرویوز اور ویڈیوز کا نقصان پراسیکیوشن کو ہوتا ہے، آج کل آفیشلز لائکس لینے کے لئے اور منافع کمانے کے لئے بھی پیجز وغیرہ بناتے ہیں، ہم ایڈووکیٹ جنرل آفس، پراسیکیوٹر جنرل آفس اور پولیس ملکر کر قانون سازی کرنے کے لئے تیار ہیں، کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر محمد اشفاق کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا تھا۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ محمد اشفاق آپ روسٹرم پر آئیں اور بتائیں یہ ملزمان کے انٹرویوز کیسے ہوتے ہیں؟ محمد اشفاق نے کہا کہ ملزمان کے انٹرویوز پولیس کرواتی ہے، زیادہ تر ایسے انٹرویوز یوٹیوب چینلز کرتے ہیں، کچھ چینلز کے علاوہ مین سٹریم میڈیا ایسے انٹرویوز نہیں کرتا۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے ایڈیشنل آئی جی سے استفسار کیا کہ قصور میں ڈانس پارٹی کس نے کروائی ؟ ایڈیشنل آئی جی پنجاب نے بتایا کہ پی ایس او ڈی پی او نے متعلقہ ایس ایچ او کو پارٹی کروانے کا کہا، پی ایس او نے ایس ایچ او کو کہا سالگرہ کی پارٹی کرواؤ۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے ایس ایچ او کو کہا کہ روسٹرم پر آئیں، جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ تمھاری ہمت کیسے ہوئی لوگوں کے چہروں پر لائٹیں مار کر ویڈیو بنا رہے تھے، جس پر ایس ایچ او نے کہا کہ یہ صرف ریکارڈ کے لئے بنائی گئی تھی۔

لاہور ہائیکورٹ نے تھانوں میں ملزمان کے انٹرویوز پر پابندی لگا دی، جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ آج کے بعد اگر کسی تھانیدار نے اس طرح کا انٹرویو میڈیا کو کرایا تو متعلقہ ایس پی ذمہ دار ہو گا، اگر کسی تھانے میں کسی کو گنجا کیا گیا، ایکسپوز کیا گیا یا ملزمان کی تذلیل کی گئی تو پولیس آفیسر کے پورٹ فولیو میں لکھا جائے گا کہ اس نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ نے 25 اپریل کو پولیس سے دوبارہ سوشل میڈیا پالیسی طلب کر لی۔