پاکستان میں افغان مہاجرین کے حقوق کی خلاف ورزی، ایک افسانہ

Published On 31 January,2025 12:22 pm

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے حقوق کی خلاف ورزی ایک افسانوی بیانیے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

پاکستان کا غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کا فیصلہ ایک خودمختار حق ہے جو سکیورٹی ، معاشی تناؤ اور قانونی نفاذ کے مطابق ہے لیکن پھر بھی اسے غیر متناسب تنقید کا سامنا ہے۔

غیر قانونی تارکین وطن سے متعلق پاکستان کی پالیسی عالمی اصولوں کے مطابق ہے، کوئی بھی ملک غیر معینہ مدت تک غیر قانونی تارکین وطن کی میزبانی کرنے کا پابند نہیں ہے اور پاکستان اپنی سلامتی، معیشت اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے قانونی اور منصفانہ پالیسی کو نافذ کر رہا ہے۔

ایک طرف نئی ٹرمپ انتظامیہ بغیر کسی ردعمل کے قومی سلامتی کے خدشات کے تحت ہزاروں افراد کو ملک بدر کر رہی ہے لیکن دوسری طرف پاکستان کو ایسے ہی قوانین کے نفاذ پر تنقید کا سامنا ہے۔

پاکستان کی جانب سے غیر قانونی تارکین کی ملک بدری پر بے بنیاد پراپیگنڈا کرنے والے افغان متاثرین ٹرمپ کی پالیسی پر خاموش ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں افغان پناہ گزین پھنسے ہوئے ہیں۔

پی ٹی ایم اور افغان حکام سیاسی فائدے کے لیے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کی قانونی پالیسی کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں جبکہ اہم اقتصادی اور سکیورٹی چیلنجز کے باوجود 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی میں پاکستان کی دہائیوں سے جاری فراخدلی کو نظر انداز کرتے ہیں۔

1951 کے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن کے غیر دستخط کنندہ کے طور پر پاکستان پر پناہ گزینوں کو ایڈجسٹ کرنے یا قانون سازی کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، افغان شہری کسی بین الاقوامی عزم کی وجہ سے نہیں بلکہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر پاکستان میں موجود ہیں۔

یونائیٹڈ نیشن ہائی کمشنر فار ریفیوجیز نے یکطرفہ طور پر ہزاروں پناہ گزینوں کو پاکستان کے تعاون کے بغیر رجسٹر کیا جس سے پاکستان کی خودمختاری کو نقصان پہنچا، پاکستان پر دباؤ ڈالنے والے عالمی واچ ڈاگ ان نام نہاد  کمزور کمیونٹیز  کی ذمہ داری لینے سے انکار کرتے ہیں۔

اگر مغرب کو واقعی پرواہ ہے تو اسے اپنے ہاں افغانوں کو پناہ دینی چاہیے، پاکستان کے حفاظتی اقدامات ضروری ہیں اور دشمنی نہیں۔