اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ملکی سیاسی منظر نامے میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے، سیاسی عدم استحکام ختم تو نہیں ہو سکا مگر اس میں گزشتہ اڑھائی برسوں کی نسبت کمی ضرور ہوئی ہے، جس کے بعد پاکستانی معیشت کیلئے اچھی خبریں آنا شروع ہوئی ہیں، معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں، شرح سود میں کمی ہوتی جا رہی ہے جو 12 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
ملک میں سرمایہ کاری آنے کی باتیں ہونے لگی ہیں، اس وقت امریکا کا ایک اعلیٰ سطح وفد پاکستان میں موجود ہے، اس وفد کی قیادت صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی جینٹری بیچ کر رہے ہیں، جن کا نئی امریکی انتظامیہ کے چارج سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ہی دورہ پاکستان سب کو حیران کر رہا ہے، جینٹری بیچ کے دورہ پاکستان سے وہ تمام قیاس آرائیاں بھی دم توڑ چکی ہیں جو نئی امریکی انتظامیہ کے آنے کے بعد پاکستان کے سیاسی محرکات پر اثر انداز ہونے سے متعلق تھیں۔
8 فروری کے انتخابات کے بعد بانی پی ٹی آئی کی تمام تر امیدیں عدالتوں سے تھیں مگر پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے سٹرکچر اور طریقہ کار میں بڑی تبدیلی کیلئے 26 ویں آئینی ترمیم نے ان امیدوں پر پانی پھیر دیا] 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ملک میں جوڈیشل ایکٹوازم کے دور کا خاتمہ ہوا اور ماضی کی عدالتی پریکٹسز ختم ہو کر رہ گئیں۔
اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور اس کی قیادت کی امیدیں امریکی انتخابات بن گئے، ٹرمپ کی جیت کے بعد کہا جانے لگا کہ 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کے سیاسی حالات میں بدلاؤ آئے گا، امیدیں باندھ لی گئیں کہ صدر ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں سابق وزیراعظم کو مدعو کیا جائے گا، امریکی صدر کے مشیر رچرڈ گرینیل کے ٹوئٹس نے بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کی امیدوں میں مزید اضافہ کر دیا، یہاں تک کہا جانے لگا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ شروع کیا گیا مذاکراتی عمل بھی شاید مغربی دباؤ پر کیا جا رہا ہے۔
نہ تو بانی پی ٹی آئی کو صدر ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں مدعو کیا گیا، نہ ہی وہاں سے کوئی ایسا پیغام آیا جس سے تحریک انصاف کی امیدیں وابستہ تھیں بلکہ صورتحال یکسر بدل کر رہ گئی اور امریکی انتظامیہ کے چارج سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ہی امریکا سے سرپرائز آ گیا، جینٹری بیچ کے دورہ پاکستان کو نہ صرف معاشی میدان میں بلکہ سفارتی سطح پر ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
معاشی میدان میں جہاں ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کے قریبی ساتھی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری لانے کے حوالے سے سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں، وہیں انہوں نے نئی امریکی انتظامیہ کی پاکستان سے متعلق ترجیحات سے متعلق بھی بہت کچھ واضح کر دیا ہے، جینٹری بیچ نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ امریکا میں پاکستان سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، پاکستان کی موجودہ قیادت اور امریکی نئی انتظامیہ کا مائنڈ سیٹ بہت ملتا ہے ٹرمپ انتظامیہ پاکستان سے متعلق بہت مثبت رائے رکھتی ہے۔
انہوں نے رچرڈ گرینیل کے بانی پی ٹی آئی کے حق میں ٹوئٹس سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ رچرڈ گرینیل نے اپنی سمجھ کے مطابق بات کی، انہیں ڈیپ فیک اے آئی کے ذریعے پریزینٹیشنز دکھا کر گمراہ کیا گیا مگر اب رچرڈ گرینیل کی انڈر سٹینڈنگ بہت بہتر ہے۔
ایک سوال کے جواب میں جینٹری بیچ نے کہا کہ وہ پاکستان کا ماحول بہت مستحکم اور سازگار دیکھ رہے ہیں، ٹرمپ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور موجودہ صورتحال میں پاکستان اور امریکا دونوں ممالک کو فائدہ اٹھانا چاہیے، چینٹری بیچ نے معدنیات و کان کنی، آئل اینڈ گیس، رئیل اسٹیٹ اور آئی ٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری میں دلچپسی ظاہر کی، انہوں نے بتایا کہ آئندہ چند روز میں پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری سے متعلق بڑے معاہدے ہوں گے۔
جینٹری بیچ نے بتایا کہ سب سے پہلے پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری ہونے جا رہی ہے، امریکی سرمایہ کاروں کی پاکستان کی معدنیات اور کان کنی میں بہت دلچسپی ہے، پاکستان کی زمین میں چھپی معدنیات دونوں ممالک کو بہت فائدہ پہنچا سکتی ہیں، انہوں نے کہا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ تجارت نہیں بلکہ لانگ ٹرم شراکت داری کرنے جا رہا ہے۔
جینٹری بیچ کے دورہ پاکستان، ان کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں حیران کن دلچسپی اور امریکی ترجیحات پر وضاحت نے ان تمام قیاس آرائیوں کو دفن کر دیا ہے جو کچھ حلقوں نے ٹرمپ انتظامیہ سے لگا رکھی تھیں، صرف جینٹری بیچ کے دورہ پاکستان ہی نہیں بلکہ ٹرمپ انتظامیہ کے رویے کو دیکھ کر ایک بات تو واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے نئی امریکی انتظامیہ سے متعلق اندازے غلط نکلے۔
ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل بھی رک گیا ہے، پاکستان تحریک انصاف نے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن نہ بنائے جانے پر مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کر دیا، منگل کے روز حکومتی مذاکراتی ٹیم انتظار کرتی رہی مگر پاکستان تحریک انصاف کے اراکین نہ پہنچے۔ پاکستان تحریک انصاف کے وفد نے مذاکراتی عمل کا حصہ بننے کی بجائے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی اور گرینڈ الائنس بنانے پر مشاورت شروع کی۔
پی ٹی آئی ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آنے کیلئے پر تول رہی ہے مگر موجودہ صورتحال میں یہ انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے، علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر کی پشاور میں عسکری قیادت کے ساتھ غیر رسمی ملاقات کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کا بیک ڈور چینل قائم نہ ہو سکا جس کے باعث بانی پی ٹی آئی نے مذاکراتی عمل سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔
بانی پی ٹی آئی کو یہ بھی اندازہ ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل اگر کامیاب کرنا ہے تو شہباز حکومت کو آئندہ تین سے چار برس تک تسلیم کرنا ہے اور سیٹ اپ کے تسلسل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرنی، ایسے میں ان کیلئے جیل میں رہنا پھر بھی کسی حد تک بہتر ہے کیونکہ جو بیانیہ وہ بنا چکے ہیں اور اپنے کارکنوں کا پارہ جس حد تک لے جا سکتے ہیں اس کے بعد ڈیل کر کے خاموشی سے بیٹھ جانا پاکستان تحریک انصاف کیلئے سیاسی موت سے کم نہیں ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی مشکلات اور چیلنجز کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں، اگر وہ ڈیل کرتے ہیں تو اس کی بھاری سیاست قیمت ہے، اگر نہیں کرتے تو انہیں اور ان کی اہلیہ کو ایک طویل عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑے گا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پھندا پاکستان تحریک انصاف کیلئے کسی اور نے نہیں اس نے خود اپنے لئے تیار کیا ہے۔