اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا سنائی گئی ہے، اسلام آباد کی احتساب عدالت نے کرپشن، کرپٹ پریکٹس اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم ثابت ہونے پر بانی پی ٹی آئی کو 14 سال جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی اور القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں دینے کا حکم دیا، حکومت کو کہا گیا ہے کہ وہ القادر یونیورسٹی کا انتظام سنبھالے۔
بانی پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنے کی تیاری کر لی ہے جو تین سے چار روز میں عدالت عالیہ میں دائر کر دی جائے گی، بانی پی ٹی آئی کو 190 ملین پاؤنڈ کیس میں اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا دی گئی مگر حیران کن طور پر اس مرتبہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کی قیادت کی جانب سے ماضی کے برعکس ایک مختلف ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر پہلے جیسی جارحانہ حکومت عملی کے بجائے صرف کیس کے میرٹس پر بات کی جا رہی ہے، تحریک انصاف اپنے طرز عمل سے یہ تاثر بھی دے رہی ہے کہ اس کے پارلیمانی مذاکراتی عمل کے ساتھ ساتھ کچھ بیک ڈور رابطے بھی جاری ہیں، یہ تاثر حکومت کیلئے کافی حد تک پریشانی کا باعث بن رہا ہے، حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے اس صورتحال میں کہا کہ بیک وقت دو تین دروازوں سے مذاکرات نہیں چلتے، تحریک انصاف کیلئے اگر بڑا دروازہ کھل گیا ہے تو کھڑکی اور روشندانوں سے جھانکنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
اپنے ایکس ہینڈل کے ذریعے ایک پیغام میں عرفان صدیقی نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کے بقول براہ راست اعلیٰ ترین فوجی سطح پر بات چیت شروع ہوگئی ہے جو اطمینان بخش ہے، یعنی تحریک انصاف کے مطابق بیک ڈور پراسس بھی چلے گا اور فرنٹ ڈور پراسیس بھی مگر کئی دروازوں سے مذاکرات نہیں چلا کرتے، اگر پاکستان تحریک انصاف کیلئے وہ بڑا دروازہ کھل گیا ہے جس کیلئے وہ طویل عرصے سے کوشاں تھے تو یہ کوشش چھوڑ دیں کیونکہ چھوٹے چھوٹے دروازوں اور کھڑکیوں سے جھانکنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ٹی وی انٹرویو کے دوران گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ انہیں بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے پشاور میں ہونے والی ملاقات کی تفصیلات کا علم ہے، یہ نہ تو ملاقات تھی نہ ہی انہیں مذاکرات کہا جا سکتا ہے لیکن اگر پاکستان تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات سے مطمئن ہے تو اپنی کمیٹی کو آگاہ کر دے کہ اب حکومت سے مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف بیک ڈور اور فرنٹ ڈور میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے، دو دو، تین تین سطحوں پر متوازی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے تو مذاکرات کو غیر ضروری قرار دے دیا اور کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کا مقصد اسٹیبلشمنٹ تک پہنچنا تھا وہ پہنچ گئے، پی ٹی آئی کو اب مذاکرات کی کیا ضرورت ہے؟
مذاکراتی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنے تحریری مطالبات حکومت کے حوالے کئے تھے اور حکومت کو 31 جنوری تک ڈیڈ لائن دی، پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سیاسی ورکرز کی رہائی اور 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے، قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے مذاکرات کی کامیابی کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے مشروط کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت اگر جوڈیشل کمیشن نہیں بناتی تو مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔
پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ مذاکرات کی چوتھی نشست میں اسی صورت بیٹھیں گے اگر حکومت جوڈیشل کمیشن بنانے کی حامی بھرے، چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ بانی چیئرمین کے احکامات ہیں کہ اگر جوڈیشل کمیشن نہیں بنتا تو مذاکرات نہ کئے جائیں، حکومت ہمیں کہہ دے کہ جوڈیشل کمیشن بنے گا تو ہی مذاکرات کے چوتھے دور میں شریک ہوں گے۔
دوسری جانب سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ ابھی حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے جوڈیشل کمیشن بنانے یا نہ بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، اس معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کو 28 جنوری کو ہونے والی چوتھی نشست میں آگاہ کیا جائے گا، گزشتہ روز حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن کے مطالبات پر تفصیلی طور پر غور کیا گیا ہے اور اس پر حکومت نے قانونی رائے بھی لی ہے تاہم مشاورت کا عمل ابھی جاری رہے گا اور جوڈیشل کمیشن بنانے یا نہ بنانے کا فیصلہ آئندہ نشستوں میں ہوگا۔
حکومت 28 جنوری کو اپنا تحریری جواب پاکستان تحریک انصاف کے حوالے کرے گی، ذرائع کے مطابق حکومت اپنے تحریری جواب میں 9 مئی سے متعلق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواعلی امین گنڈا پور کا مؤقف بھی شامل کرنے جا رہی ہے جس کے مطابق وہ 9 مئی واقعات میں پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں کے ملوث ہونے کو تسلیم کر چکے ہیں، علی امین گنڈا پور یہ کہہ چکے ہیں کہ ہمارے کچھ لوگ گمراہ ہوگئے تھے، یہ ہمارے اپنے لوگ تھے مگر جتنا جرم ہوا سزا اتنی ہی ہونی چاہیے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد اعترافِ جرم کر چکے ہیں ان کے ویڈیو بیانات سامنے آچکے ہیں، ان واقعات میں ملوث افراد کی بڑی تعداد سے متعلق فیصلے بھی آچکے ہیں اگر اب کمیشن بنایا جاتا ہے تو وہ کیا تحقیقات کرے گا؟
اگرچہ ابھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے مگر حکومتی بیانات سے تو لگتا ہے کہ 9 مئی کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کا قیام اتنا آسان کام نہیں ہوگا، 9 مئی کے حوالے سے ریاست کا مؤقف اور بیانیہ بھی بڑا واضح اور دو ٹوک ہے، ایسے میں جوڈیشل کمیشن نہ بننے یا اس میں تاخیر کا معاملہ مذاکراتی عمل کو خطرے میں ڈالتا نظر آ رہا ہے، تحریک انصاف کی جانب سے البتہ اس مرتبہ ریاست اور ریاستی اداروں پر تنقید اور پراپیگنڈا کو کسی حد تک بریک ضرور لگی ہے جو موجودہ صورتحال میں خوش آئند ہے اور مستقبل میں پاکستان تحریک انصاف کو مشکلات سے نکلنے میں مدد دے گا۔
پاکستان تحریک انصاف نئی حکمت عملی کے تحت اداروں کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے صرف حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائی جا سکے، تحریک انصاف کو اگر اپنی اس حکمت عملی کو واقعی مؤثر اور کامیاب بنانا ہے تو اسے ایک طویل عرصے کیلئے یہ طرزِ عمل اپنانا ہوگا۔