خیبرپختونخوا: نگران دور حکومت میں ادویات کی خریداری میں خردبرد کے ہوشربا انکشافات

Published On 23 November,2024 11:28 am

پشاور: (ذیشان کاکا خیل) نگران صوبائی حکومت کے دوران محکمہ صحت میں ادویات کی خریداری میں خردبرد سے متعلق کمیٹی کی سفارشات وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کو پیش کر دی گئیں۔

رپورٹ کے مطابق 4.4 ارب روپے کی ادویات کی خریداری میں 1.9 ارب کی خردبرد کی نشاندہی کی گئی ہے، 1.86 ارب کی خریداری غیر ضروری اور غیر ایمرجنسی آئٹمز جن کی ڈیمانڈ موجود نہیں تھی کی مد میں کی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 3.17 ارب کی ادویات و آئٹمز اور میڈیکل سامان چند مراکز میں تقسیم کیا گیا جس میں 1.08 ارب مالیت کا سامان صرف چھ میڈیکل مراکز میں تقسیم کیا گیا جبکہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر شمالی وزیرستان کو ادویات و میڈیکل آئٹمز کی بہت بڑی کھیپ بغیر کسی ضرورت کے ترسیل کی گئی، ان غیر ضروری آئٹمز میں گاؤنز، کنڈومز، ڈسپوزیبل او ٹی شیٹ اور دستانے شامل تھے۔

کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ 81 فرمز کو ابتدائی طور پر سلیکٹ کیا گیا جبکہ رقم کی تقسیم اور ادویات صرف 14 فرمز سے خریدی گئیں، زیادہ تر ادویات کی خریداری بغیر معائنہ کے کی گئی جسکی وجہ سے ناقص ادویات عوام کو دی گئیں، ترسیل اور ادائیگی سے پہلے ڈرگ ٹیسٹ کی رپورٹس کو بھی نظر انداز کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق پانچ کروڑ کی ادویات ایک ایسی فارما کمپنی سے لی گئیں جن کے ادویات کے سب سٹینڈرڈ ہونے کی رپورٹ موجود ہے، پریکورائرمنٹ اینڈ ڈسٹریبیوشن پلان ریکارڈ پر موجود نہیں پائے گئے جس سے ڈیمانڈ کی اسسمنٹ کا اندازہ لگائے بغیر غیر ضروری اشیاء خرید کر خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔

اسی طرح ٹرانسپورٹیشن کے مد میں بے جا اخراجات کیے گئے جو کہ غیر ضروری تھے، بلوں کی ادائیگی میں غیر متعلقہ اداروں کو استعمال کیا گیا، پرچیز آرڈرز کو مختص کردہ تخمینہ جات سے زیادہ کر کے خزانے پر بوجھ کو بڑھایا گیا، خریداری کے مد میں فیکٹری قیمت کی بجائے ریٹل قیمت پر 10 فیصد سے 45 فیصد زیادہ بنتی ہے پر ادویات کو خریدا گیا۔

کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پالیسی کے اندر ڈرگ ٹیسٹنگ کی شرط کو جان بوجھ کر ختم کیا گیا جس سے غیر معیاری ادویات کی خریداری ممکن بنا دی گئی، درآمد کنندگان کا زمینی سٹاک جس کا 40 فیصد کا ہونا لازمی تھا کو نظر انداز کر کے ضابطے کی خلاف ورزی کی گئی۔

نیب پشاور نے اس ضمن میں پہلے سے ہی ایک انکوائری کا حکم دے رکھا ہے اس لیے نیب کے قانون سیکشن 18 (ڈی) کے مطابق محکمہ کو انکوائری رپورٹ کے ساتھ تمام ریکارڈ بھیجنے کو کہا گیا ہے تاکہ لوٹی ہوئی رقم کو ریکور کیا جائے اور ملوث افراد کے خلاف فوجداری کارروائی عمل میں لائی جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ کمیٹی نے غیر قانونی خریداری کے اندر ملوث افراد کے خلاف محکمانہ کارروائی کی سفارش بھی کی ہے۔

غیر معقول و غیر ذمہ دارانہ خریداری کی وجہ سے جون 2024 میں تقریباً تمام ہسپتالوں و بنیادی مراکز صحت میں ایمرجنسی ادویات ختم ہو گئی تھیں، اس نازک معاملے کو موجودہ حکومت نے 2 ارب کی خریداری کرکے ایمرجنسی ادویات جس میں 90 ادویات بنیادی مراکز صحت اور 174 ادویات ہسپتالوں کی مد میں خرید کر ادویات کی دستیابی کو یقینی بنایا۔

25-2024 کی خریداری کے لئے ٹھیکہ دینے کا مرحلہ موجودہ حکومت نے مکمل کردیا جس سے خریداری کا عمل شروع ہوگیا ہے، اس سال کی خریداری میں 12 ارب کی مارکیٹ قیمت کی ادویات 5 ارب میں خریدی جائیں گی جس سے خزانے کو تقریباً 7 ارب کی بچت ہوگی۔

ادویات کے معیار اور اس پر کسی قسم کے ٹرانسپورٹ کے اخراجات نہ ہونے کو یقینی بنایا گیا ہے، سینٹرل پرچیز سسٹم کو یکسر ختم کردیا گیا ہے جس سے پچھلے سال خزانے کو بے بہا نقصان پہنچایا گیا۔

اس دفعہ ڈسٹرکٹ لیول سے ادویات کی ڈیمانڈ ٹھیکیداروں کو دی جائے گی اور ڈسٹرکٹ لیول پر ہی ادویات کو وصول اور ادائیگی کی جائے گی۔

کمیٹی نے حکومت کو 2015 کی ادویات کی خریداری کی پالیسی میں چند تبدیلیاں لانے کے بعد کابینہ سے منظور کروانے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی سفارشات کی ہیں۔