لاہور : (سلمان غنی) پاکستان کی سیاست میں اس وقت حکومت او راپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کا کھیل جاری ہے۔ عمران خان بضد ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں اس حکومت کو قبول نہیں کریں گے۔ عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بہت جلد دوبارہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دیں گے او راس بار ہم حکومت کو زیادہ بڑا سرپرائز دیں گے۔ اپوزیشن سپریم کورٹ سے مطالبہ کررہی ہے کہ اس کو اسلام آباد میں پرامن احتجاج کی بغیر کسی حکومتی رکاوٹ کے اجازت دی جائے۔ جبکہ اس کے برعکس حکومت کا مؤقف ہے کہ اس بار عمران خان او ران کی جماعت پہلے سے زیادہ سختی سے نمٹا جائے گا ۔ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ اگر اپوزیشن نے لانگ مارچ کا دوبارہ اعلان کیا تو اسی دن سے ان کے خلاف کارروائی ہوگی او ربڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی کی جاسکتی ہیں۔عمران خان کے اس اعتراف کے بعد پچھلے لانگ مارچ میں ان کے اپنے کارکنوں کے پاس ہتھیار تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے کسی بڑی لڑائی سے بچنے کے لیے لانگ مارچ کو ملتوی کیا تھا۔اس پر وزیر اعظم سمیت وزیر داخلہ نے عمران خان کے اس بیان پر کہ ان کے کارکن بھی مسلح تھے سخت ردعمل کا اظہا رکیا ہے او رکہا کہ ہمارا مؤقف درست ثابت ہوا کہ تحریک انصاف کی اسلام آباد میں سیاسی چڑھائی کا مقصد ملک میں خون خرابے کی سیاست کو سامنے لانا تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے بقول انتخابات اسمبلی کی مقررہ کردہ مدت کے بعد ہی ہونگے۔مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہے کہ ہمیں اس وقت اقتدار کی سیاست کرنی ہے تو ہمیں ان تمام سیاسی حقائق کو قبول کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم لیگ (ن)کو اقتدار کی پوری مدت ملے او روہ جب انتخابات میں جائے تو اس کے پاس اپنی کارکردگی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ موجود ہو۔ فوری طو رپر انتخابات کا راستہ تحریک انصاف کے حق میں جاسکتا ہے۔اب رانا ثنا اللہ عمران خان کے دوسرے لانگ مارچ کو طاقت یا سختی کے انداز میں نمٹنا چاہتے ہیں اور ان کے بقول کسی کو بھی اسلام آباد کی طرف نہیں آنے دیا جائے گا۔عمران خان بڑی کال دینے سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے کے منتظر ہیں اور وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ عدالت ان کو کس حد تک ریلیف دیتی ہے ۔ ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان آسانی سے گھر نہیں بیٹھیں گے او راپنی سیاست کو بنیاد بنا کر وہ حکومت پر دباو ٔکو بڑھانے کی پالیسی کو ہی جاری رکھیں گے۔
دوسری جانب مسلم لیگ( ن) نے بھی عمران خان کی تحریک کے خلاف مریم نواز کو سیاسی میدان میں اتارا ہوا ہے او روہ بھی مختلف شہروں میں جلسے کرکے عمران خان کی سیاست پر شدید تنقید کررہی ہیں۔مریم سمجھتی ہیں کہ عمران خان کی سیاست کو دباؤ میں لانا ہی مسلم لیگ( ن) کی حکمت عملی ہونی چاہیے او راسی کو بنیاد بنا کر وہ اپنا سیاسی میدان چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔
اس وقت عمران خان کو انتظامی طاقت کے زور پر سیاسی محاذ پر دیوار سے لگانے کی حکمت عملی درست نہیں۔ حکومت کو ماننا ہوگا کہ پچھلے دھرنے میں بھی تحریک انصاف نے سخت مزاحمت کی او ران کے خلاف اگر حکومت طاقت کا راستہ اختیار کرتی ہے تو اس کا نقصان بھی براہ راست اپوزیشن سے زیادہ حکومت کو برداشت کرنا پڑے گا۔اس لیے جو لوگ بھی حکومت میں موجود ہیں او رحکومت کو مشورے دے رہے ہیں کہ عمران خان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے وہ حکومت کو ایک خطر ناک کھیل کی جانب لانا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) اور وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت وزیر اعظم نے نئے گورنر کی تقرری پر یقینا سکھ کا سانس لیا ہوگا۔وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے پنجاب کے نئے گورنر کی تقرری کے بعد صورتحال حکمران جماعت کے لیے کافی بہتر ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ او را ن کی کابینہ کی تشکیل کے بعدپنجاب میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہوگیا ہے لیکن وزیر اعلیٰ حمز ہ شہباز کی اکثریت ابھی بہت کمزور ہے او روہ محض چند ووٹوں کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ سپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی، حمزہ شہباز کی بطور وزیر اعلیٰ تقرری کے خلاف عدالتوں میں موجود ہیں۔
اس وقت پنجاب کے دونوں بڑے سیاسی فریقین یعنی مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصا ف سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں ہی اصل فیصلہ ہوگا او ریہیں پر ان دو نوں جماعتوں کے درمیان مقابلہ مرکزی سیاست کو بھی طے کرنے کا سبب بنے گا لیکن اصل سوال اس وقت یہ ہے کہ ہم اپنی قومی سیاست کو کسی درست سمت یا بہتر حکمت عملی کے تحت چلاسکیں گے یا سیاسی محاذ آرائی کا یہ کھیل سیاسی انداز میں چلتا رہے گا؟ اگر ہمارے سیاست دانوں نے اپنے اپنے طرز عمل کو درست نہیں کیا تو اس کا نقصان ریاست کو ہوگا۔