الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی منحرف اراکین پنجاب اسمبلی کو ڈی سیٹ کردیا

Published On 20 May,2022 03:04 pm

اسلام آباد (دنیا نیوز) الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے 25 منحرف اراکین پنجاب اسمبلی کو ڈی سیٹ کردیا گیا۔

معاملے پر محفوظ فیصلہ چیف الیکشن کمیشنر سکند سلطان راجہ کی جانب سے سنایا گیا۔

جن 25 منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کیا گیا ان کے نام ملک غلام رسول، سعید اکبر خان، محمد اجمل، عبدالعلیم خان، نذیر احمد چوہان، محمد امین ذوالقرنین، ملک نعمان لنگڑیال، محمد سلمان اور زوار حسین وڑائچ شامل ہیں۔ دیگر ڈی سیٹ ہونے والے اراکین میں محمد طاہر، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، ہارون عمران گل، عظمیٰ کاردار، ملک اسد علی، اعجاز مسیح، محمد سبطین رضا، محسن عطا خان کھوسہ، میاں خالد محمود، مہر محمد اسلم اور فیصل حیات شامل ہیں۔ ان منحرف ارکان نے حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کیلئے ووٹ دیا تھا۔

ڈی سیٹ اراکین کے حلقے

راجہ صغیر، پی پی 7 راولپنڈی

ملک غلام رسول سانگھا، پی پی 83 خوشاب

سعید اکبر نوانی، پی پی 90 بھکر

محمد اجمل چیمہ، پی پی 97 فیصل آباد

عبد العلیم خان، پی پی 158 لاہور

نذیر چوہان، پی پی 167 لاہور

امین ذوالقرنین، پی پی 170 لاہور

ملک نعمان لنگڑیال، پی پی 202 ساہیوال

سلمان نعیم، پی پی 217 ملتان

زوار حسین وڑائچ، پی پی 224 لودھراں

نذیر احمد خان، پی پی 228 لودھراں

فدا حسین، پی پی 237 بہاولنگر

زہرا بتول، پی پی 272 مظفر گڑھ

لالہ طاہر، پی پی 282 لیہ

اسد کھوکھر، پی پی 168 لاہور

محمد سبطین رضا، پی پی 273 مظفر گڑھ

محسن عطا خان کھوسہ، پی پی 288 ڈی جی خان

میاں خالد محمود، پی پی 140 شیخوپورہ

مہر محمد اسلم، پی پی 127 جھنگ

فیصل حیات جبوانہ، پی پی 125 جھنگ

عائشہ نواز، ڈبلیو 322 مخصوص نشست

ساجدہ یوسف ڈبلیو 327 مخصوص نشست

عظمیٰ کاردار ڈبلیو 311 مخصوص نشست

ہارون عمران گل، این ایم 364 اقلیتی نشست

اعجاز مسیح، این ایم 365 اقلیتی نشست 

25 منحرف اراکین اسمبلی ڈی سیٹ: الیکشن کمیشن نے تحریری فیصلہ جاری کر دیا

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پنجاب کے 25 منحرف اراکین اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کاتحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

 الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی روشنی میں فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا، منحرف اراکین اسمبلی تاحیات نااہلی سے بچ گئے اور الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کردیا۔ فیصلہ 23 صفحات پر مشتمل ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ارکان نے وزیراعلیٰ کےانتخاب میں مخالف امیدوار کو ووٹ دیا، مخالف امیدوارکو ووٹ ڈالنے سے انحراف ثابت ہو گیا، منحرف ارکان کے خلاف ڈکلیریشن کو منظور کیا جاتا ہے، منحرف اراکین اسمبلی کی رکنیت ختم ہو گئی، اب یہ نشستیں خالی ہو گئیں، الیکشن کمیشن کے پاس ریفرنس سے متعلق دو آپشن تھے، ارکان کو 63 اے کی شرائط پوری نہ ہونے پر مسترد کرنا ہی آپشن تھا، دوسرا آپشن تھا مخالف سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی کہا گیا امیدوار کو ووٹ ڈالنا سنگین معاملہ ہے۔

فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کی رائے ہی کہ ارکان کا مخالف امیدوار کو ووٹ ڈالنا ایک سنگین معاملہ ہے، مخالف امیدوار کو ووٹ دینے پارٹی پالیسی سے دھوکا دہی کی بدترین شکل ہے، الیکشن کمیشن اس نتیجہ پر پہنچا انحراف کے معاملہ کا انحصار شرائط پر پورا اترنے کے معاملے پر نہیں ہو گا۔

تحریک انصاف کی جانب سے مذکورہ ریفرنس کی سماعت کے دوران موقف اختیار کیا گیا تھا کہ منحرف اراکین نے پارٹی فیصلے کے برعکس مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز کو ووٹ دیا لہذا منحرف اراکین آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ، انہیں سزا کے طور پر ڈی سیٹ کر دیا جائے۔

دوسری جانب منحرف اراکین کا اپنے دفاع میں کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کے حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت نے کوئی ہدایات جاری نہیں کی تھیں۔

 

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پنجاب میں سیاسی اور آئینی ہلچل بڑھ گئی

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کیے جانے کے فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں سیاسی اور آئینی ہلچل مزید بڑھ گئی۔

پنجاب اسمبلی میں نمبرز گیم ایک بار پھر اہمیت اختیارکر گئی، نئی صورتحال میں دونوں جماعتوں کےلیے صورتحال دلچسپ بن چکی ہے، ن لیگ کے 5 منحرف نکالنے کے بعد ارکان کی تعداد 160 ہے، پیپلز پارٹی7،آزاد ارکان 4 اور 1 راہِ حق پارٹی کے رکن کی حمایت حاصل ہے۔

حمزہ شہباز کے پاس اس وقت مجموعی طور پر 172 ارکان کی حمایت رہ گئی ہے۔ ن لیگ کے 5منحرف ارکان کےساتھ تعداد 177 ہے۔

پی ٹی آئی کے 183 ارکان میں سے 25 منحرف نکالنے کے بعد تعداد 158 ہے، پی ٹی آئی کے 158 ارکان میں ڈپٹی سپیکر کا ووٹ بھی شامل ہے، 25 منحرف ارکان میں سے 5 ارکان مخصوص نشستوں سے تعلق رکھتے ہیں پی ٹی آئی 5 ریزرو سیٹوں پر نئے چہرے لا کر ووٹوں کی تعداد 163 کر لے گی۔

ڈپٹی سپیکر کا 1ووٹ مائنس ہونے سے یہ تعداد 162 رہ جائے گی، مسلم لیگ ق کے 10 ووٹوں کے ساتھ پی ٹی آئی کے پاس 172 سیٹیں ہونگی، ن لیگ کے منحرف ارکان نکال کر مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد برابر یعنی 172 پر کھڑی ہو گی۔

نئی صورتحال میں آزاد رکن پنجاب اسمبلی چودھری نثار علی خان کا کردار اہمیت اختیار کرگیا ہے۔