ایک غلطی‘ 90 افراد کی جان لے گئی

Published On 04 February,2025 12:20 pm

لاہور: (طاہر جاوید مغل) وہ 4 دسمبر 1957ء کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی شام تھی، لندن کے دفتروں اور کارخانوں میں چھٹی ہو چکی تھی اور گھروں کو جانے والے افراد بہت جلدی میں نظر آتے تھے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو لندن کے مضافاتی علاقوں سے کام کرنے کیلئے آتے تھے، اس شام بہت بے چین نظر آ رہے تھے۔

وجہ یہ تھی کہ اس روز سردی معمول سے کچھ زیادہ تھی اور دھند بھی وقت سے بہت پہلے پھیلنا شروع ہوگئی تھی، روزانہ سفر کرنے والوں کو معلوم تھا کہ اگر دھند مزید گہری ہوگئی تو ریل گاڑیوں کی آمدورفت متاثر ہوگی اور اس طرح ان کا گھروں تک پہنچنا مشکل ہو جائے گا۔

لندن کے دو ریلوے سٹیشنوں ’’چیئرنگ کراس‘‘ اور ’’کینسن سٹریٹ‘‘ پر مسافروں کا زبردست ہجوم تھا، چیئرنگ کراس سٹیشن پر 5 بج کر 18 منٹ پر چلنے والی الیکٹرک ٹرین مسافروں سے کھچا کھچ بھری کھڑی تھی اور سبز سگنل کا انتظار کر رہی تھی، اس ٹرین کی دس بوگیاں تھیں اور تقریباً پندرہ سو مسافر اس میں سوار تھے، ان مسافروں میں سے زیادہ تر دفتروں میں کام کرنے والے کلرک، ٹائپسٹ، فیکٹریوں کے مزدور اور کرسمس کی خریداری کیلئے آنے والی عورتیں تھیں۔

یہ سب لوگ اب جلد سے جلد گھروں کو پہنچنا چاہتے تھے اور بار بار اپنی گھڑیوں کی طرف دیکھ رہے تھے، یہ گاڑی مضافاتی سٹیشن ’’بینر‘‘ تک جا رہی تھی لیکن درمیان میں بھی گاڑی کو کئی دوسرے سٹیشنوں پر رکنا تھا، آخر آدھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد 5 بج کر 48 منٹ پر گاڑی کو سبز سگنل ملا اور گاڑی ایک خوشگوار جھٹکے کے ساتھ اپنی جگہ سے حرکت میں آ گئی۔

لندن کے مضافاتی علاقے کو جانے والی یہ ریلوے لائن اس وقت دنیا کے معروف ٹرین لائن تھی، اس لائن پر آنے جانے کے لئے چار پٹڑیاں تھیں چوبیس گھنٹے کے دوران ان پٹڑیوں پر سے 990 گاڑیاں گزرتی تھیں، صبح و شام کے اوقات میں رش بہت زیادہ ہو جاتا تھا اور اڑھائی منٹ کے بعد ایک گاڑی ہر ایک پٹڑی پر سے گزرتی تھی، گاڑیوں کی اس بے تحاشا آمدورفت سے نبٹنے کے لئے ٹریفک سگنل کا خصوصی انتظام کیا گیا تھا اور تقریباً ہر پانچ سو گز پر ایک سگنل نصب تھا۔

الیکٹرک ٹرین نسبتاً دھیمی رفتار سے اپنے راستے پر دوڑی جا رہی تھی، ٹرین کا ڈرائیور موٹر مین سلکٹن‘‘ تھا اور اس وقت اس کے دو سینئر ساتھی بھی انجن روم میں اس کے ساتھ سفر کر رہے تھے، یہ تینوں افراد ہر لخط پھیلتی ہوئی دھند میں گہری نظروں سے سامنے کی طرف دیکھ رہے تھے اور کسی سگنل کو نظرانداز کرنا نہیں چاہتے تھے، تقریباً دس میل کا سفر بخوبی طے ہوگیا اور انہیں کسی جگہ رکنا نہیں پڑا۔

آخر جب وہ ’’پارکس برج کنکشن‘‘ کے قریب پہنچے تو انہیں سرخ سگنل کا منہ دیکھنا پڑا اور یوں الیکٹرک ٹرین پل کو پار کرنے کے فوراً بعد ایک جگہ پر ٹھہر گئی، اس سے پہلے بہت کم ایسا ہوا تھا کہ کسی ٹرین کو اس جنکشن پر رکنا پڑا ہو، ڈرائیور سلکٹن نے اپنے کیبن سے سگنل باکس کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں سے پوچھا کہ کیا سرخ بتی کسی خرابی کی وجہ سے تو نہیں جل رہی، دوسری طرف سے کرخت لہجے میں جواب ملا کہ نہیں بتی ٹھیک جل رہی ہے، گاڑی کو اس وقت تک روکے رکھو جب تک صحیح سگنل نہیں ملتا۔

ڈرائیور خاموش ہو گیا اور سگریٹ سلگا کر اپنے دوسرے ساتھیوں سے گپ شپ میں مصروف ہوگیا دھند اب گہری ہو گئی تھی، گاڑی میں موجود تمام زندگی ٹھہر گئی تھی، لوگ بار بار کھڑکیوں میں سے سر نکال کر دھند کی دبیز چادر میں ٹمٹماتی ہوئی سرخ بتی کو دیکھ رہے تھے اور ٹھنڈی آہیں بھر رہے تھے، وہ اس آفت سے بے خبر تھے جو ایک ٹرین کی صورت میں عقب سے تیزی کے ساتھ ان کی طرف بڑھ رہی تھی اور ان میں سے بہت سوں کیلئے ہلاکت اور تباہی کا پیغام لا رہی تھی، یہ بھاپ کے انجن سے چلنے والی گیارہ ڈبوں پر مشتمل ایک مسافر بردار گاڑی تھی جو مسافروں سے لدی ہوئی ’’کینن سٹریٹ‘‘ سے ’’رامس گیٹ‘‘ جا رہی تھی۔

’’کینن سٹریٹ‘‘ تک گاڑی کو ایک اور ڈرائیور چلا کر لایا تھا، اس نے گاڑی کا چارج ’’ٹریو‘‘ کے حوالے کرتے ہوئے اسے بتایا تھا کہ گاڑی میں پانی کی مقدار کم ہے اور اسے پانی بھروا لینا چاہئے، ’’ٹریو‘‘ گاڑی کا انتظار کرتے کرتے بہت بور ہو چکا تھا، اس نے فیصلہ کیا کہ شیڈول کے مطابق سیدھا برج ٹاؤن جانے کے بجائے وہ راستے میں ’’سیلون آکس‘‘ کے مقام پر گاڑی روکے گا اور وہاں سے پانی بھروا لے گا، لندن برج سے گزرتے ہی اس نے رفتار بڑھا دی اور بھاپ کا وزنی انجن 30 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دندناتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔

دھند بہت گہری تھی لیکن پٹڑی کے ساتھ ساتھ جھلملاتے ہوئے سبز سگنل اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ آگے راستہ صاف ہے، وہ پوری رفتار سے ’’سٹریٹ جوہن‘‘ کے سٹیشن میں داخل ہوا تھا اور اب ’’پارکس برج جنکشن‘‘ کی سمت بڑھ رہا تھا، دراصل بطور ڈرائیور اپنی زندگی میں ’’ٹریو‘‘ کو کبھی اس سٹیشن پر رکنا نہیں پڑا تھا، ہو سکتا ہے اس کے ذہن میں یہ خیال ہی نہ آیا ہو کہ اس کو یہاں رکنا پڑ سکتا ہے۔

اچانک ’’ٹریو‘‘ کے ذہن میں کسی شے نے سر ابھارا اور اس نے چلا کر اپنے فائر مین سے پوچھا ’’کیا تم پلیٹ فارم کے آخری سرے پر موجود سگنل دیکھ سکتے ہو؟ فائر مین، ہوٹر نے باہر جھانکا اور چیختی ہوئی آواز میں بولا ’’سگنل سرخ ہے‘‘، کیا کہا سگنل سرخ ہے؟ ’’ٹریو نے دہشت زدہ آواز میں دہرایا اور پھر اس نے جلدی سے بریک لگانے کی کوشش کی لیکن اب وقت گزر چکا تھا۔

دھند اور اندھیرے کی دبیز چادر میں لپٹی ہوئی الیکٹرک ٹرین صرف 138 گز کے فاصلے پر موجود تھی، سٹیم ٹرین کا وزنی انجن الیکٹرک ٹرین کے آخری ڈبے سے ٹکرایا اور اس کو کاغذ کی طرح ادھیڑتا ہوا نویں اور آٹھویں ڈبے کو تہس نہس کر گیا، دسواں ڈبہ تو عملے کے استعمال کے لئے تھا اور خالی تھا لیکن نواں اور آٹھوں ڈبہ مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، یہ دونوں ڈبے ایک دوسرے میں اس طرح دھنس گئے کہ ایک ڈبے کی صورت اختیار کر گئے۔

جائے حادثہ سے نزدیک ترین جگہ ’’ایلسوک روڈ‘‘ تھی جس وقت حادثہ رونما ہوا اس وقت قصبے کے لوگ سردی سے بچنے کیلئے گھروں میں آگ جلائے بیٹھے تھے اور رات کے کھانے کی تیاری کر رہے تھے، اچانک گڑگڑاہٹ کی آواز آئی اور پھر زور دار دھماکے سے درو دیوار لرز اٹھے، قصے کے لوگ بھاگتے ہوئے جائے حادثہ پر پہنچے اور پھر وہاں کا منظر دیکھ کر ان کی چیخیں نکل گئیں۔

طاہر جاوید مغل ایک لکھاری اور متعدد کتب کے مصنف ہیں، زیر نظر مضمون ان کی کتاب ’’تاریخی حادثات‘‘ سے مقتبس ہے۔