اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو ایک بار پھر پیشکش کی ہے کہ وہ اگر کشمیر کی پرانی حیثیت بحال کرے تو اس سے بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ اس حوالے سے بھارت کا کوئی مثبت ردعمل نہیں آیا۔
وزیراعظم عمران خان کا خبر ایجنسی رائٹرز کو دیئے گئے انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہمیشہ سے بھارت کیساتھ مہذب اور آزاد تعلقات کی حمایت کی لیکن بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے ریڈ لائن عبور کی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ خطے سے غربت ختم کرنے کیلئے باہمی تجارت کرنا ہوگی۔ خیال رہے کہ اس سے قبل اپنے ایک بیان میں عمران خان نے کہا تھا کہ اگست2019ء میں ختم کی گئی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی سے پہلے بھارت سے تعلقات معمول پر لے کر جانا کشمیریوں کے خون سے غداری ہوگی۔
افغان مسئلے پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جس دن جوبائیڈن انتظامیہ نے انخلا کی تاریخ دی طالبان سمجھنے لگے کہ وہ جنگ جیت چکے ہیں۔ غیر ملکی افواج کی واپسی سے پہلے افغان مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے عشروں پرانی تذویراتی گہرائی کی پالیسی تبدیل کی ہے، اب کابل میں جو بھی عوام کی منتخب کردہ حکومت ہوگی، پاکستان اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی وزیراعظم عمران خان نے واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر بھارت سے تجارت غداری ہوگی، ہم کشمیریوں کے خون سے یہ غداری نہیں کر سکتے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کیساتھ تجارت کی بحالی کشمیریوں کے خون سے غداری ہوگی، وزیراعظم
یہ بات وزیراعظم عمران خان نے ٹیلی فون پر عوام سے براہ راست گفتگو کرتے ہوئے کہی تھی۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ اقتدار سنبھالا تو بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی کیونکہ ہمسایہ ملکوں کیساتھ بہتر تعلقات سے تجارت بڑھے گی۔ تاہم کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر بھارت سے تجارت غداری کریں گے۔
وزیراعظم نے واضح اور دوٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کشمیریوں کے خون پر ہم بھارت سے تجارت کریں۔ بھارت کو پانچ اگست کا اقدام واپس لینا ہوگا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ہندؤں کو آباد کر رہا ہے۔
مسئلہ فلسطین پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ظلم کے ذریعے فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے مظالم پر پہلی دفعہ مغرب میں بھی احتجاج ہوئے۔ دنیا میں شعور آ گیا ہے، اب دو ریاستی حل کی طرف جانا ہوگا۔