لاہو: (تجزیہ:سلمان غنی) کورونا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے مسئلہ حل ہونے کے بجائے گھمبیر اور پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہر آنیوالے دن میں متاثرین اور شرح اموات بڑھ رہی ہے۔ اس آخری ہفتہ میں دس ہزار کیس سامنے آئے ہیں اور اب شرح اموات بھی روزمرہ بنیادوں پر 50 سے بڑھتی جا رہی ہے اور ان حکومتی اعدادوشمار پر خود حکومتی سطح پر بھی جو تشویش نظر آنی چاہئے تھی وہ نظر نہیں آ رہی۔ اس لئے کہ اس صورتحال کے سدباب کیلئے جو کچھ کیا جانا چاہئے تھا وہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ الٹا جس لاک ڈاؤن کو وائرس کے سدباب کیلئے ناگزیر قرار دیا جا رہا تھا اب اس میں سختی نہیں نرمی نظر آ رہی ہے۔ پنجاب حکومت نے تو ریسٹورنٹس اور دیگر کاروباری سرگرمیاں کھولنے کیلئے بھی مرکز کو سفارش کی ہے اور اس حوالے سے 31 مئی کو وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ہونیوالا اجلاس اہم ہوگا۔
اس صورتحال میں ایک تشویشناک پہلو خود حکومت کے بیانیہ میں تضادات بھی ہے۔ نیویارک، برطانیہ، سپین اور اٹلی میں ایسے مظاہرے ہوئے جن میں لاک ڈاؤن ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، یہ وہ ممالک ہیں جن کی معاشی حالت کمزور نہیں اور یہاں کی حکومتوں نے مشکل کی اس صورتحال میں اپنے عوام کو پیکیج دئیے ہیں تاکہ وہ گھروں میں بیٹھ کر اپنا کچن چلا سکیں، اپنا پیٹ بھر سکیں اور اس طرح سے دنیا لاک ڈاؤن سے اب سمارٹ ڈاؤن میں زندگی گزارنے کی طرف جا رہی ہے۔ اگر پاکستان میں زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ابھی صورتحال قابو میں نہیں آ رہی خصوصاً رمضان المبارک کے آخری عشرہ بلکہ آخری دنوں میں مشروط اجازت کو عوام ازخود غیر مشروط اجازت سمجھ کر ایسے باہر نکلے اور مارکیٹوں کا رخ کیا کہ جیسے کورونا ختم ہو گیا ہے اور انہیں اب اس ساری کمی کو پورا کرنا ہے جو لاک ڈاؤن کے باعث پیدا ہوئی لیکن اب عیدالفطر کے بعد آنے والے اعدادوشمار نے سب کو چونکا کر رکھ دیا ہے کیونکہ اس آخری ہفتہ میں متاثرین کی تعداد میں دس ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔
22 مئی کو متاثرین کی تعداد تقریباً پچاس ہزار تھی جو اب 30 مئی کو 65 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور اب رفتار ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اس خطرناک صورتحال کا مداوا کیسے ہو سکتا ہے ، اس جان لیوا بیماری کے آگے بند کیسے باندھا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا خطرناک وائرس ہے کہ جس کا کوئی علاج احتیاط کے علاوہ نہیں اور ہماری سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ ہم احتیاط نہیں کر رہے اور اسی رجحان نے حکومت، ماہرین اور ڈاکٹرز کو پریشان کر رکھا ہے کیونکہ حالات اس نہج پر پہنچتے نظر آ رہے ہیں کہ اب ہسپتالوں میں مزید مریضوں کیلئے گنجائش نہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اتنی بڑی تعداد میں وینٹی لیٹر ہیں کہ خطرناک صورتحال سے دوچار مریضوں کو مہیا کئے جا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب معاشرے کے باشعور لوگوں میں تشویش بڑھ رہی ہے، حکومت کے ہاتھ پاؤں بھی پھولے نظر آ رہے ہیں اور اب تو اعلیٰ سطحی حلقوں میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ حکومت بتائے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرثانی پچاس ہزار متاثرین کے بعد کرے گی یا ایک لاکھ کے بعد یا وہ دس ہزار افراد مرنے کا انتظار کرے گی یا اس سے زیادہ کیونکہ اب اس پالیسی پر نظرثانی کرنا ناگزیر ہے۔ کیونکہ دنیا میں ایسے نہیں ہو رہا کہ لاک ڈاؤن کیا جائے اور پھر کچھ روز کے بعد ختم کر دیا جائے۔
جہاں تک اس وائرس کے خاتمہ میں عوام کی ذمہ داری کا سوال ہے تو انہیں بھی اس صورتحال کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا۔ آخر وہ کیوں اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب خود ان کا کوئی عزیز یا بچہ اس سے متاثر نہ ہو، اگر حکومت نے اپنے طور پر عوام کو سہولت دینے کیلئے لاک ڈاؤن میں نرمی کا آپشن اختیار کیا تو اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ اس کا کچھ ریلیف ملے۔ اس جنگ میں فیصلوں کا اختیار اگر حکومت کا ہے تو اس وائرس سے لڑنا عوام کو ہے ، جنگ عوام نے لڑنی بھی ہے اور جیتنی بھی ہے۔ آج اگر حکومت کرفیو یا موثر لاک ڈاؤن لگا دے تو یقیناً لوگوں کو بھوک کے لالے پڑ جائیں گے اور اگر حکومت لاک ڈاؤن میں نرمی کرتی ہے تو عوام اسے سنجیدہ نہیں لیتے اور سماجی فاصلوں کا احترام کرتے نظر نہیں آتے، یہ کسی طور پر بھی درست نہیں۔ جب تک کیسز کی تعداد میں کمی نہ آئے یا پھر ویکسین ایجاد نہ ہو یا پاکستان کی ٹیسٹنگ اہلیت نہ بڑھ جائے تب تک معمول کی زندگی یا بداحتیاطی والی زندگی میں واپس نہیں آسکتے۔
اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے ایسے نتائج سامنے نہیں آئے جیسے کہ دیگر ملکوں میں آئے۔ خدا تعالیٰ کا کوئی خاص کرم بھی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن عوام کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ صورتحال بڑی گھمبیر ہے اور کورونا دراصل زندگی موت کا مسئلہ ہے اور اسے شکست دینے کیلئے زندگی موت کے جذبے سے ہی لڑنا ہوگا۔ حکومت کی طرف دیکھنے کے بجائے خود اپنی طرف اپنے اہلخانہ کی طرف دیکھیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ مشکل وقت حوصلے سے ہی نکلے گا، لاپروائی اور عدم سنجیدگی کا مظاہرہ خود ان کیلئے خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔