فضائی حادثات کی تحقیقات کیوں پبلک نہیں ہوتیں؟

Last Updated On 29 May,2020 10:00 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) پی آئی اے کے طیارہ کو پیش آنے والے حادثہ میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کی جانب سے تحفظات کا وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لیا ہے اور سول ایوی ایشن حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن طیاروں کے حادثات کو برسوں گزرے ان کی تحقیقات کیونکر پبلک نہ ہو سکیں، تمام حادثات کی تحقیقات پبلک کی جائیں۔ کراچی طیارہ حادثہ پر منعقدہ بریفنگ میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ جن کے پیارے دنیا سے چلے گئے انہیں ان حادثات کی وجوہات جاننے کا حق ہے، ان کی حکومت شفافیت پر یقین رکھتی ہے لہٰذا تحقیقات سامنے آنی چاہئیں۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سول ایوی ایشن حکام کی سرزنش کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ حکومت طیارے کے حادثہ کی تحقیقات کے حوالے سے دباؤ میں ہے اور بڑا سوال یہ کھڑا ہوا ہے کہ مذکورہ حادثہ کی تحقیقات بھی ماضی کے حادثات کی تحقیقات کی طرح گول نہ ہو جائے اور ذمہ داران کا تعین نہ ہو سکے۔ سیاسی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کسی بھی بڑے حادثہ اور سانحہ کا تحقیقاتی عمل اس کے نتائج اور سفارشات سے صرف نظر برتا گیا جس کی وجہ سے متعلقہ اداروں کی کارکردگی متاثر ہوئی اور اداروں کی ساکھ پر بھی حرف آیا۔ وزیراعظم عمران خان اور انکی حکومت کے سامنے یہ بڑا چیلنج ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے طیارہ حادثہ کی رپورٹ اور ماضی میں ہونے والے حادثات کی رپورٹ بھی پبلک کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ہوا بازی کی صنعت پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں ہونے والے حادثات کی تحقیقات اور سفارشات پر یہاں کی لابیز اثر انداز ہوئیں اور رپورٹ کو پبلک کرنے سے اجتناب برتا گیا اور اسی رجحان نے ہمیں حادثات کا چہرہ دکھانا شروع کیا، انہی لابیز کا نتیجہ ہے کہ صنعت تباہ حال ہے اور کوئی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، ملک میں ہوائی سفر ہر گزرتے دن کے ساتھ غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ آج ملک کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ عوام الناس کا اعتماد اپنے اداروں اور حکومتوں پر نہیں رہا۔ ہوائی صنعت کی مختلف لابیز اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے سرگرم ہو چکی ہیں اور 97 قیمتی جانوں کے حوالے سے کوئی بھی جوابدہی کیلئے تیار نہیں۔ پائلٹ اور پی آئی اے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نظر آئے ہیں۔

ایئر ٹریفک اور اپروچ کنٹرولر نے سارا ملبہ پائلٹ پر ڈال دیا۔ اپروچ کنٹرولر کے مطابق کپتان نے لینڈنگ سے 10 ناٹیکل میل پر دی گئی ہدایات کو نظر انداز کیا۔ انکا یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ پائلٹ نے بار بار ہدایات کو نظر انداز کیا۔ اس وقت بنیادی سوالات یہی ہیں کہ پہیے کھلے نہیں تھے تو لینڈنگ کی اجازت کیوں دی گئی، پائلٹ رگڑ کھانے کے بعد جہاز اڑالے گیا تو تب کنٹرول ٹاور کیا کر رہا تھا۔ کب پتہ چلا کہ جہاز کے انجن ناکارہ ہو گئے ہیں۔ ایئر ٹریفک کنٹرول ان سوالات کے جوابات کی بجائے اپنے بیانات کے پیچھے چھپنا چاہتا ہے۔ بحر حال بہت سے سوالات ہیں جو تحقیقاتی عمل میں ان معاملات کو کھولیں گے جنہیں چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ یہ حادثہ نہیں بلکہ یہ سسٹم کی بڑی ناکامی ہے۔

پائلٹ کے والد پی آئی اے کے تحقیقاتی عمل پر عدم اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان کا خدشہ ہے کہ اپنی نا اہلی اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اسکے بیٹے کو ملزم نہ بنا دیا جائے۔ دوسری جانب فرانسیسی ٹیم اور پاکستانی ماہرین کو ایک کامیابی یہ ملی ہے کہ کاک پٹ وائس ریکارڈ مل گیا ہے، اس سے حادثہ کی تحقیقات میں بڑے بریک تھرو کا باعث بن سکتا ہے، حکومت پر آنے والے دباؤ اور وزیراعظم عمران خان کی یقین دہانی کے بعد امکان یہی ہے کہ تحقیقاتی عمل تیز تر ہوگا اور تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ذمہ داروں کا تعین اور اقدامات کیلئے سفارشات ضرور سامنے آئیں گی اور یہ تحقیقاتی رپورٹ ہوا بازی کی صنعت میں بہتری اور اس کے نتائج کے حوالے سے اہمیت کی حامل بن سکتی ہے۔