لاہور: (دنیا نیوز) میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' کے مطابق پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے تعلقات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد وفاقی حکومت اور سندھ کی حکومت کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوئی ہے اور ایک اچھے ماحول میں ایک وسرے سے بات چیت کا عمل شروع ہو گیا ہے، لگتا ہے کہ فاصلے کافی حد تک کم ہوئے ہیں۔
اس وقت وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی ترجیح یہ ہے کہ آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کو تبدیل کیا جائے اس سلسلے میں انڈرسٹینڈنگ ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم سے گلہ کیا کہ سندھ کی ترقیاتی سکیمیں سست روی کا شکار ہیں اور خاص طور پر کراچی کی صورتحال تشویشناک ہے، اس پر وزیر اعظم نے کہا کہ اسد عمر اس سلسلے میں تمام رکاوٹیں دور کریں گے اور کراچی کے منصوبے تیزی سے آگے بڑھیں گے۔
میزبان کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن وزیر اعظم عمران خان کی اصل اپوزیشن نہیں ہیں بلکہ خود ان کی اپنی جماعت میں موجود گروپ بندی ہے اس وجہ سے انہیں دباؤ کا سامنا ہے۔ کل واضح طور پر لگا کہ عمران خان اپنی ٹیم کے دفاع میں ڈٹ گئے اور اپنی ٹیم میں عثمان بزدار اور محمود خان کے مخالف کھلاڑیوں کو شٹ اپ کال دے دی، پیش رفت بتا رہی ہے کہ پی ٹی آئی پر عمران خان کی گرفت مضبوط ہے ۔ وزیر اعظم نے کل گورنر پنجاب چودھری سرور سے بھی کوئی ملاقات نہیں کی ،ناقدین کے مطابق گورنر پنجاب کو بھی سائیڈ لائن کردیا گیا ہے۔
اس حوالے سے ممتاز تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف میں ڈسپلن کا ہمیشہ مسئلہ رہا ہے ۔ کل عاطف خان سے ہماری بات بھی ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ وہ صلاح مشورے کے بعد اپنی حکمت عملی بنائیں گے، عاطف خان اور پرویز خٹک کی بڑی چپقلش ہے۔
ممتاز تجزیہ کار عارف نظامی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین لندن جانے سے پہلے کافی گراؤنڈ ورک مکمل کر کے گئے تھے۔ چودھری برادران عثمان بزدار کو سپورٹ کرتے ہیں۔ عارف نظامی نے کہا کہ عمران خان کو فی الحال سسٹم کی سپورٹ حاصل ہے، اپوزیشن بھی ان کے لئے مسائل پیدا نہیں کر رہی ہے لیکن گورننس کے ایشوز کی وجہ سے کسی مرحلے پر وفاق اور پنجاب میں تبدیلی ناگزیر ہوگی۔