لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان ڈیووس سے واپسی پر سیاسی محاذ پر سرگرم ہوئے اور انہوں نے پنجاب اور پختونخوا میں خود حکومتوں کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کے قلع قمع کے لیے بعض سیاسی اقدامات کا اعلان کیا۔
پختونخوا میں تو انہوں نے اپنے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف سازش کے مرتکب تین وزرا کو وزارتوں سے بر طرف کر دیا، جب کہ پنجاب کے محاذ پر انہوں نے اپنا وزن وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے اعلان کیا کہ وزیراعلیٰ وہی رہیں گے، نیا وزیراعلیٰ آئے گا تو وہ بھی 20 روز سے زیادہ نہیں چل پائے گا، میں جانتا ہوں کہ سازش کون کر رہا ہے ؟ یہ تاثر درست نہیں کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار با اختیار نہیں، چیف سیکرٹری، آئی جی نئے لگائے ہیں، یہ وزیراعلیٰ کے سسٹم کے طور پر کام کریں گے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو صوبہ میں منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور قبضہ مافیا کے خلاف مؤثر اقدامات کی ہدایت کی۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا پختونخوا اور پنجاب میں اپنی ہی حکومت میں بحرانی کیفیت کا خاتمہ ہو گیا ؟ کیا واقعتاً عثمان بزدار دوبارہ بااختیار بن گئے ؟ کیا پختونخوا میں وزیروں کی چھٹی سے معاملات سنبھل پائیں گے ؟ پنجاب میں حکومت اور انتظامی مشینری میں توازن قائم ہو پائے گا ؟ ۔
وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں براہ راست دو صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی لیکن تاثر یہی رہا کہ دونوں صوبوں میں مضبوط افراد کو آگے لانے کے بجائے بوجوہ کمزور افراد کو صوبہ کی کپتانی سونپی گئی اور اسی بنا پر صوبوں کے اندر حکومتیں نہ تو مضبوط بن سکیں اور نہ ہی سیاسی اور عوامی محاذ پر کارکردگی دکھا پائیں۔ پختونخوا میں برطرف کیے جانے والے تین وزرا میں سے عاطف خان اور شہرام ترکئی کو خود وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف کی جدوجہد کا ساتھی قرار دیا اور ماضی میں عاطف خان کی صلاحیتوں اور کردار کو سراہتے نظر آئے۔ عاطف خان کے حوالہ سے یہ تاثر درست ہے کہ وہ خود کو وزیراعلیٰ کا امیدوار سمجھتے تھے لیکن وزیر دفاع پرویز خٹک کی مخالفت پر انہیں موقع نہ مل سکا، تاہم وہ وزیراعلیٰ پختونخوا محمود خان کے مقابلے میں صوبے کے محاذ پر زیادہ متحرک دکھائی دیئے۔ پرانے ارکان اسمبلی ان کے ساتھ رابطے میں رہے اور وہ اسے اپنا استحقاق سمجھتے ہوئے بعض ارکان کو وزیر اور مشیر بنانے پر زور دیتے رہے، جس میں انہیں ناکامی ہوئی، لیکن اب وزیراعلیٰ محمود خان سے اختلافات کی بنا پر ان وزرا کی چھٹی کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے پاس اب اس کے سوا کوئی آپشن نہ تھا۔ لیکن تحریک انصاف کی صفوں میں یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ جماعت سے وابستگی اور جدوجہد کے حامل افراد کی چھٹی کا عمل بھی وزیراعظم عمران خان کے ہاں خارج از امکان نہیں، البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر وزرا خاموشی بھی اختیار کرتے ہیں تو اس سے محمود خان کی حکومت مضبوط نہیں ہو پائے گی۔
دوسری جانب پنجاب کے محاذ پر وزیراعظم عمران خان نے اپنا وزن وزیراعلیٰ کے پلڑے میں ڈال کر یہ تو پیغام دے دیا کہ تبدیلی کا کوئی آپشن زیر غور نہیں، البتہ انہوں نے یہ سوال کھڑا کر کے کہ سازش کون کر رہا ہے ، میں جانتا ہوں، وقتی طور پر اختلافات اور تحفظات ظاہر کرنے والوں کو دفاعی محاذ پر لا کھڑا کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان پنجاب کے محاذ پر پختونخوا کی طرز پر انتہائی اقدام کرنے کی پوزیشن میں تو نہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ کچھ ارکان ٹارگٹ پر آ سکتے ہیں اور یہ کام بااختیار انتظامی مشینری کو سونپا جائے گا۔ پنجاب کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب میں بحران وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی وجہ سے نہیں اور نہ ہی عوام کو ان سے غرض ہے، پنجاب کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں گورننس کا بحران درپیش ہے ۔ اگر عام آدمی کو صحت کی سہولتیں مہیا ہو رہی ہوں، تھانہ کلچر میں بہتری محسوس کی جا رہی ہو، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں آگ لگی نظر نہ آ رہی ہو، آٹے ، چینی کی قیمتوں میں استحکام نظر آ رہا ہو تو یہ کیفیت کبھی پیدا نہ ہو، جو پنجاب کے محاذ پر نظر آ رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ لاہور کا بڑا فائدہ تو خود وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ہوا کہ انتظامی مشینری کے ہاتھوں بے بس وزیراعلیٰ کے حوالے سے وزیراعظم نے یہ کہہ دیا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ عثمان بزدار بے اختیار وزیراعلیٰ ہیں اور چیف سیکرٹری اور آئی جی نئے ہیں، وہ وزیراعلیٰ کی ٹیم کے طور پر کام کریں گے۔
جہاں تک اس دورے کے دوران وزیراعظم نے ارکان اسمبلی کو ویلج کونسلوں کے انتخابات کا ٹاسک سونپا ہے تو فی الحال یہ ممکن نظر نہیں آرہا کیوں کہ وزیراعظم کے تمام تر اقدامات اور بیانات کے باوجود عوامی سطح پر ایسی صورت حال نہیں کہ تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات کا رسک لے سکے کیوں کہ اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ مہنگائی، بے روزگاری نے عوام کا جینا اجیرن بنا دیا ہے، انہیں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے نظر آ رہے ہیں، لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے بجائے بے روزگاری کا رجحان عام ہے اور خود حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لیے وعدوں اور دلاسوں کے سوا کچھ نہیں اور اس امر کا اظہار خود ان کے ارکان اسمبلی کھلے طور پر کرتے نظر آتے ہیں اور خود سیاسی محاذ پر اگر پیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے، خصوصاً پنجاب اور پختونخوا کی حکومتوں کے خلاف بغاوت کا پتا چلایا جائے تو یہ بغاوت باہر سے نہیں اندر سے ہوئی ہے اور ہو رہی ہیں اور اس حوالے سے وفاقی وزرا اور حکومتی ذمہ داروں کے بیانات اس کا ثبوت ہیں۔ خود ان وزرا کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بعض اہم وزرا دنیا بھر کے ہر ایشو پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، سوائے اپنی وزارتوں کے۔ ہوا، پانی کے وزیر کرونا وائرس پر بات کر رہے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر پنجاب کے معاملات پر سرگرم ہیں۔ ریلوے کے وزیر چینی، آٹے کا رونا روتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک وزیر وزیراعظم کی مسکراہٹ کو قاتلانہ قرار دے رہی ہیں، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابھی تو اپوزیشن سیاسی محاذ پر خاموش ہے تو یہ صورت حال ہے اور اگر وہ بھی میدان میں اُتر کر حکومت کو چیلنج کرتی دکھائی دی تو پھر کیا صورت حال ہو گی؟۔
لہٰذا مذکورہ صورت حال کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ جب تک حکومتیں اپنے مینڈیٹ پر کاربند رہتے ہوئے عوام کو کارکردگی نہیں دکھائیں گی، ان کے لیے ریلیف کا بندوبست نہیں ہو گا۔ جب تک گورننس کی فراہمی کا عمل نظر نہیں آئے گا، اُس وقت تک یہی صورت حال طاری رہے گی۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ لاہور کے دوران گورنر پنجاب چودھری سرور کی لاہور میں موجودگی کے باوجود غیر حاضری کو غیر معمولی قرار دیا جا سکتا ہے کیوں کہ انہوں نے بھی اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی کے دباؤ پر ایک ایسا بیان دے ڈالا جو آج کی حکومت کے زمرے میں جرم قرار پایا ہے، ان کی جانب سے انتظامی مشینری کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ تو خود گورنر ہاؤس کے ٹیلی فون پر احکامات پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں، اس سارے ماڈل کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی تھا، جس کے تحت پنجاب کو چلایا جا رہا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کے حوالے سے بھی اچھی خبریں نہیں آ رہیں اور آخری بات جس بنا پر پنجاب میں ساری بحرانی کیفیت طاری ہوئی تھی وہ بیورو کریسی کے ذریعے حکومت چلانے کا تجربہ تھا۔ اب ارکان اسمبلی کے دباؤ اور سیاسی محاذ پر اٹھنے والے سوالات کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو با اختیار تو قرار دے دیا لیکن یہ آنے والے دنوں میں پتا چلے گا کہ وہ کس حد تک با اختیار ہوئے ہیں اور ان کے احکامات پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں، سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بیورو کریسی کو ایک مرتبہ اضافی اختیارات سے سرفراز کر دیا جائے تو پھر ان سے ان کی واپسی ممکن نہیں ہوتی، ویسے بھی ان کی بالادست پوزیشن بہت سوچ بچار کے بعد قائم کی گئی ہے، فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آتا لہٰذا ارکان اسمبلی کو فی الحال بیورو کریسی کی جانب سے عزت و تکریم پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔ جہاں تک (ق) لیگ کے تحفظات کا سوال ہے تو واقفان حال کا کہنا ہے کہ چودھری صاحبان کے حوالے سے حکومت کی پالیسی فی الحال خاموشی کی ہے کہ پہلے اپنی صف بندی مضبوط ہوگی اور پھر چودھری صاحبان اور (ق) لیگ سے معاملات کا جائزہ لیا جائے گا۔