لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ لاہور سے نکل کر اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے، یہ بات خوش آئند ہے کہ آزادی مارچ کو کہیں بھی کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کر نا پڑا۔ مارچ کے شرکا نے بھی اس عمل کو برقرار رکھا۔ پنجاب حکومت بھی آزادی مارچ کے راستے میں نہیں آئی، اس لحاظ سے یہ ایک مثالی سیاسی سرگرمی ہے۔ جے یو آئی کے کارکن بہت ہی پُر امن انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ حکومت اطمینان سے سن رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی سے شروع ہونے والا یہ قافلہ پُر امن انداز میں جی ٹی روڈ پر رواں دواں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادی مارچ کے کنٹینر پر نواز شریف، آصف زرداری، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی اور میر حاصل بزنجو کی تصاویر لگی ہوئی ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن جماعتیں اس آزادی مارچ میں دور دور تک نظر نہیں آ رہیں، وہ اس کا عملی حصہ نہیں ہیں۔ اپوزیشن میں اس حوالے سے مختلف آرا ہیں۔ لاہور میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مقامی رہنماؤں کا الگ الگ اجلاس ہوا، جس میں محض یہ فیصلہ کیا گیا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے دو بڑے مقامات پر اپوزیشن جماعتیں مل کر آزادی مارچ کے لیے استقبالیہ کیمپ لگانے کا سوچیں گی مگر اس سلسلے میں کوئی عملی سیاسی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ پیپلزپارٹی نے یہ ضرور کہا تھا کہ اس کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں اور وہ ہمدردیاں ہی ساتھ رہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کنٹینر پر ہیں نہ سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پچھلے 48 گھنٹوں سے بلاول بھٹو زرداری پردہ سیمیں سے غائب ہیں۔ لاہور میں مولانا فضل الرحمن کی خواہش تھی کہ وہ سروسز ہسپتال جا کر نواز شریف سے ملاقات کریں لیکن ڈاکٹروں نے اجازت نہ دی، اگر یہ ملاقات ہو جاتی تو موجودہ سیاسی صورت حال میں اہم پیش رفت ہوتی، مگر لگتا ہے نواز شریف بوجوہ اس وقت کسی قسم کی سیاسی سرگرمی کا حصہ بننا نہیں چاہتے اور شاید ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) بھی اس ماحول کو سکون سے گزرنے دینا چاہتی ہے کیوں کہ نواز شریف شدید علیل ہیں۔ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کی ٹاپ لیڈر شپ کی موجودگی میں آزادی مارچ کو جو تقویت حاصل ہوتی، اس سے وہ عاری نظر آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے لاہور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دبے الفاظ اور ماہرانہ سیاسی انداز میں اس گلے کا اظہار بھی کیا۔ مولانا نے کہا کہ ‘‘راستے میں جن لوگوں نے ہمیں خوش آمدید کہا ہے ، جن سیاسی جماعتوں نے اس کارواں کو خوش آمدید کہا ہے، میں ان کو اس آزادی مارچ میں شامل تصور کرتا ہوں، اگرچہ ان کے حالات ان کو ہمارے ساتھ چلنے پر آمادہ نہیں کر سکے، ہر آدمی کے کچھ حالات ہوتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی وابستگی کا اظہار کر کے اپنے آپ کو آزادی مارچ کا حصہ بنایا اور وہ گھر بیٹھے بھی آزادی مارچ کا حصہ تصور ہوں گے ’’۔ مولانا فضل الرحمن کے گلے میں درد بھی تھا جس کا اظہار انہوں نے ماہرانہ سیاسی انداز میں کیا۔ یہ آزادی مارچ کی کہانی ہے جو مولانا نے چند الفاظ میں سموئی۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے کہا کہ آزادی مارچ کی فنڈنگ سے متعلق کافی اطلاعات ہیں، انہیں بڑی فنڈنگ ہوئی ہے، یہ تمام چیزیں پیسے کے بغیر نہیں ہو سکتیں، ہمیں معلوم ہے کہ فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے ؟ تاہم تاجر برادری نے آزادی مارچ کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔ جے یو آئی (ف) کو فنڈنگ سے متعلق وضاحت دینی چاہیے، اخراجات سے متعلق ایک دن سوال اٹھیں گے۔