لاہور: (تجزیہ : سلمان غنی) سابق وزیراعظم نواز شریف کی جیل یاترا کے بعد مسلم لیگ ن کے دوسرے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ایل این جی کیس میں گرفتاری کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ٹارگٹ صرف شریف خاندان نہیں بلکہ مسلم لیگ ن اور اس کے وہ تمام ذمہ داران ہیں جو سیاسی محاذ پر بھرپور انداز میں اپنی قیادت اور جماعت کا کیس لڑتے نظر آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آتا۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری، نیب اور وزیراعظم عمران خان کی ملی بھگت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا قصور اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ نواز شریف کے وفادار ساتھی اور دلیر آدمی ہیں جبکہ خود عمران خان ایک ضدی، غصے سے بھرے ہوئے سلیکٹڈ وزیراعظم ہیں۔ ہم پہلے بھی کھڑے رہے اب بھی کھڑے رہیں گے مگر آپ کو یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا۔
شہباز شریف کا مؤقف اور عزم یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ان کی آنے والے حالات پر نظر ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مقدمات، گرفتاریوں کے بعد مسلم لیگ ن کے دیگر ذمہ داران کس حد تک ثابت قدم رہیں گے۔ مسلم لیگ ن صعوبتوں اور قربانیوں کیلئے تیار ہے۔ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر مسلم لیگ ن کے گرد شکنجہ دن بدن سخت ہوتا نظر آ رہا ؟ اس صورتحال کے ملکی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے اور کیا اپوزیشن حالات کے مقابلہ کیلئے عوامی قوت کو بروئے کار لا پائے گی؟۔
جہاں تک مسلم لیگ ن کے ذمہ داران کی ثابت قدمی کا تعلق ہے تو 28 جولائی 2017 کو نواز شریف کی عدالتی نا اہلی کے بعد یہ تاثر ظاہر ہو رہا تھا کہ شاید مسلم لیگ ن حصوں میں تبدیل ہو جائے گی اور نواز شریف کو راستے سے ہٹانے والی قوتیں ان کے دیگر ساتھیوں کو بھی ادھر اُدھر کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے لیکن تمام تر مقدمات، چھاپوں، جیلوں کے باوجود ابھی تک کوئی اہم رہنما ڈانواں ڈول نظر نہیں آ رہا اور خصوصاً اراکین قومی و صوبائی اسمبلی مشکل حالات کے باوجود اپنی پارٹی لیڈر شپ اور جماعت سے بیوفائی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے کسی بڑی احتجاجی تحریک یا رد عمل کا فوری امکان نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ پارٹی کی موجودہ لیڈر شپ خصوصاً مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کسی بھی شہر میں احتجاجی جلسہ یا ریلی پر جائیں گی تو مسائل زدہ لوگ اور پارٹی ورکرز ضرور ان کا خیر مقدم کریں گے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خاتون جرأت مندی اور بہادری سے نہ صرف اپنے باپ کا سیاسی کیس پیش کرتی نظر آ رہی ہیں بلکہ ملک کو در پیش چیلنجز پر وزیراعظم عمران خان، ان کی حکومت اور ان کی کارکردگی کو چیلنج کر رہی ہیں۔ اس کی ایک مثال منڈی بہاؤ الدین میں ان کا جلسہ ہے۔
جیسے جیسے معاشی پالیسیوں کے اثرات پریشان حال عوام پر ظاہر ہو رہے ہیں، بے چینی، مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے حکومت اس صورتحال کے تدارک کے بجائے سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کرتی اور کرپشن اور لوٹ مار کو بنیاد بناتے ہوئے انہیں جیلوں میں بند کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ حکومت کے خیال میں گرفتاریوں اور مقدمات کا سلسلہ حالات پر غلبہ حاصل کئے رکھے گا اور مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سمیت معاشی ایشوز پیچھے رہ جائیں گے لیکن اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائدین کی کرپشن اور لوٹ مار میں ملوث ہونے پر مقدمات کے سلسلہ پر تو عوامی سطح پر دو آرا ہو سکتی ہیں مگر اس حوالے سے دو آرا نہیں کہ حکومت اپنے اقتدار کے گیار ویں ماہ بھی ڈلیور کرتی نظر نہیں آ رہی اور اس کی ناکامی اور نا اہلی کا تاثر غالب ہو رہا ہے۔ لہٰذا منتخب حکومت کو مسائل کا ادراک کرتے ہوئے اپنے مینڈیٹ کے مطابق آگے بڑھنا چاہئے۔
جس کے خلاف کرپشن کے مقدمہ میں ثبوت موجود ہیں ان کے خلاف تحقیقات مکمل کر کے ریفرنس عدالتوں میں جانے چاہئیں لیکن اگر احتساب کے حوالے سے صرف مخالفین کو ٹارگٹ کیا جائے گا تو پھر احتساب کے نام پر انتقام کی اس روش سے نہ صرف احتسابی عمل متنازعہ ہوگا بلکہ خود نیب اور حکومت کے حصے میں سوائے بدنامی کے کچھ نہیں آئے گا۔ خصوصاً سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کے حوالے سے یہ تاثر نمایاں ہوا ہے کہ مقصد کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔ مسلم لیگ ن کے اور ذمہ داران کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کرپشن بدعنوانیوں، بے ضابطگیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں مگر شاہد خاقان جیسے شخص کے بارے میں یہ تاثر رہا ہے کہ وہ کرپشن میں ملوث نہیں ہوں گے لہٰذا کرپشن کے الزامات پر سیاستدانوں کی گرفتاریوں کا عمل سیاست کو بھی بدنام کر رہا ہے اور جمہوریت بھی کمزور پڑ رہی ہے۔