کراچی: (رپورٹ: عبدالجبار ناصر) سندھ کے وزیر اعلٰی سید مراد علی شاہ کی گرفتاری، سندھ میں فارورڈ بلاک کے ذریعے وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے اور صوبے میں گورنر راج لگائے جانے سے متعلق قیاس آرائیاں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چودھری کے حالیہ بیان اور پنجاب اسمبلی سے تعلق رکھنے والے (ن) لیگ کے ارکان کی وزیر اعظم سے ملاقات کو اس حوالے سے بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ راستہ آسان ہے۔ آئین کے مطابق سندھ میں حکومت کی تبدیلی کے 6 راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ سید مراد علی شاہ خود مستعفی ہو جائیں۔ دوسرا یہ کہ سندھ اسمبلی کے 168 ارکان میں سے 85 تحریک عدم اعتماد کی تحریک کامیاب بنائیں، یہ راستہ مشکل ہے کیوں کہ ایوان میں پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت ہے۔ پی پی پی ارکان کی تعداد 99 ہے۔ تحریک انصاف کے 30، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 21 اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے ) کے 14 ارکان ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان کے تین ارکان ہیں اور متحدہ مجلس عمل کا ایک۔ ایم ایم اے اور تحریک لبیک پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دینے کی پوزیشن میں نہیں۔
حکومت بنانے کے لیے پی ٹی آئی اور اس کی ہم خیال جماعتوں کو 21 ارکان پیپلزپارٹی سے توڑنا پڑیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 63 الف (1) ذیلی آرٹیکل ‘‘ب’’ (دوم) کے تحت پارٹی سے منحرف ہو کر اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان پارٹی سربراہ کی شکایت کے بعد رکنیت کے لیے نا اہل ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے سینیٹ انتخابات 2019 ء سے ایک دن قبل پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن بلوچستان اسمبلی رمضان کاکڑ کا نا اہلی کیس اہم ہے۔
تیسرا راستہ گورنر سندھ کی طرف سے وزیر اعلٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کرنا ہے۔ پی پی پی کے چند ارکان ایوان سے غیر حاضر رہ کر مشکلات پیدا کر سکتے ہیں مگر ان کے سروں پر بھی نا اہلی کی تلوار لٹکی رہے گی۔ انہیں الیکشن کمیشن اور عدالت میں غیر حاضری کا قابل قبول سبب بیان کرنا ہو گا۔ عائشہ گلا لئی نااہلی کیس کا فیصلہ بہت اہم ہے کیوں کہ پارٹی قائد کی جانب سے ہدایت نہ ملنے کی بدولت عائشہ گلا لئی نا اہلی سے بچ گئی تھیں۔
چوتھا یہ کہ گورنر راج نافذ کر دیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 234 (1) کے تحت قومی اسمبلی اور سینیٹ سے الگ الگ سفارش ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف سندھ میں گورنر راج کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے الگ الگ سفارش حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔ پانچواں راستہ آئین کے آرٹیکل 235 کے تحت مالیاتی ایمرجنسی کا نفاذ ہے ۔ یہ راستہ بہت مشکل ہے ۔ چھٹا اور آخری راستہ مارشل لاء کا ہے جو کسی بھی اعتبار سے آئینی اور قانونی نہیں۔ وفاقی حکومت سندھ میں تبدیلی کے لیے فارورڈ بلاک کی راہ چل سکتی ہے۔