لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ملک میں ہر آنے والے دن میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کا رجحان جہاں منتخب حکومت کیلئے بڑا امتحان بن چکا ہے وہاں حکومت مخالف جماعتیں انہیں بنیاد بناتے ہوئے اسے حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے بروئے کار لا رہی ہیں اور ایسی اطلاعات ہیں کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں عیدالفطر کے بعد حکومتی کارکردگی کو بنیاد بناتے ہوئے خصوصاً مہنگائی، بے روزگاری اور ملکی معاشی صورتحال پر حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کریں گی اور اس حوالے سے مشترکہ نکات کیلئے باقاعدہ اپوزیشن جماعتوں میں مشاورتی عمل جاری ہے۔ لہٰذا دیکھنا پڑے گا کہ کیا واقعتاً حالات اس نہج پر آ گئے ہیں کہ اپوزیشن منتخب حکومت کے خلاف میدان عمل میں آئے۔
زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد عوامی توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آ رہیں بلکہ الٹا معاشی حوالے میں بہتری کے بجائے ابتری کا منظر ہے۔ پٹرول، بجلی، گیس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافہ کے اثرات ہر سطح پر محسوس کئے جا سکتے ہیں اور مہنگائی کا طوفان ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کا مہنگائی جیسے معاملات پر کوئی کنٹرول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں مایوسی کا عمل بڑھ رہا ہے اور وہ لوگ جنہوں نے حکومت سے بہت زیادہ توقعات قائم کی تھیں اب حکومت کو کوستے نظر آ رہے ہیں اب تک کی حکومتی کارکردگی سے ایک بات تو کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ حکومت کا ان حالات کے حوالے سے ہوم ورک نہ بنا اور نہ ہی انہیں صورتحال کی خرابی کا اندازہ تھا۔
اب تک حکومت اپنی ناکامی کو قبول کرنے کی بجائے سابقہ حکمرانوں اور حکومتوں پر ملبہ ڈال کر سرخرو ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن یہ عمل بھی اب چلتا نظر نہیں آ رہا۔ کیونکہ نو ماہ میں قرضوں کا بہت بڑا بوجھ اپنے کاندھوں پر لاد کر خود اس نے اپنے آپ کو ماضی کی حکومتوں کے ساتھ لا کھڑا کیا ہے۔ جہاں تک حکومت کی عدم کارکردگی اور مہنگائی، بے روزگاری کے خلاف اپوزیشن کے احتجاج کا تعلق ہے تو یہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں خصوصاً مولانا فضل الرحمن کی خواہش تو ضرور ہے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ جہاں عوام عمران خان کی حکومت سے مایوسی ہوئے ہیں وہاں وہ ماضی کی حکومتوں کو بھی اس سے بری الذمہ نہیں سمجھتے۔ ایک جانب حکومت کو خود اپوزیشن کے دباؤ کا سامنا ہے تو دوسری جانب خود حکومت کے اندر پائی جانے والی گروپ بندی بھی حکومت کیلئے بڑے چیلنج کے طور پر موجود ہے۔
جہانگیر ترین اور مخدوم شاہ محمود کے درمیان غیر اعلانیہ نفسیاتی جنگ کے براہ راست اثرات حکومتی کارکردگی پر پڑ رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور ان کے ساتھی کسی طور پر بھی جہانگیر ترین کی اہم حکومتی اجلاسوں میں شرکت کو ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں جبکہ جہانگیر ترین کا مؤقف ہے کہ وہ صرف عمران خان کو جوابدہ ہیں۔ اور باوجود عدالتی نا اہلی کے ان کی حکومت کے اندر اہمیت، حیثیت محسوس کی جا رہی ہے ۔ لہٰذا حکمران جماعت کے اندر گروپ بندی کا عمل بھی حکومت پر اثر انداز ہو رہا ہے جہاں تک سیاسی محاذ سے بڑھ کر عوامی محاذ کا تعلق ہے اور مہنگائی زدہ عوام کے کسی تحریک یا احتجاج میں شرکت کا سوال ہے تو فی الوقت اس حوالے سے اس لئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ عوام ماضی کی حکومتوں سے بھی زیادہ خوش نہیں رہے۔
اب تک کی صورتحال یہی ہے کہ عمران خان کی حکومت سے جتنی زیادہ توقعات تھیں اتنی زیادہ مایوسی پیدا ہوئی ہے اور اس مایوسی کے نتیجہ میں ملک کے اندر کوئی متبادل سیاسی قوت نظر نہیں آ رہی جو عوام کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔ ملکی صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ملک کسی بڑی احتجاجی تحریک کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو چاہئے کہ اپوزیشن کی جانب ہاتھ بڑھانے اور ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کی فکر کرے۔ مسائل کا سیاسی حل ہی کارگر اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے ۔