لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) آئی ایم ایف سے رجوع کو خود کشی کے مترادف قرار دینے والی حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے خود اپنے ہی عوام کو بجلی اور گیس کے جان لیوا جھٹکے لگانے کا فیصلہ کر لیا وہ تمام شرائط تسلیم کر لی گئیں جن پر لیت و لعل ظاہر کیا جا رہا تھا۔ بجلی اور گیس کی مد میں 340 ارب سالانہ نکلوائے جائیں گے۔ چھوٹے صارفین کے علاوہ سب کیلئے سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ بھی ہو گیا۔
مذکورہ صورتحال اور فیصلوں کے بعد اب عوام اپنی منتخب حکومت سے ریلیف کی توقع رکھ پائیں گے۔ کیا منتخب حکومت عوام کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ پائے گی ؟ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اپنی جگہ کیا عوام کی معاشی حالت حکومت کو مزید ٹیکس لگانے اور مہنگائی بڑھانے کی اجازت دے سکتی ہے۔ زمینی حقائق سے ہٹ کر حکومت نے معاشی فیصلے کئے تو اس کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے۔ اپوزیشن آئی ایم ایف پروگرام پر محض تنقید کرنے کے علاوہ عملاً کیا اقدامات اٹھائے گی، کوئی سیاسی لیڈر یا جماعت مسائل زدہ، مہنگائی زدہ عوام کی آواز بن سکے گی۔
زمینی حقائق اور حکومتی معاملات کا جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف کی حکومت نے اول روز سے ہی یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے گریز کرے گی۔ اس مقصد کیلئے وزیراعظم عمران خان مدد کیلئے دوست ممالک کے پاس چکر لگاتے نظر آئے۔ سعودی عرب، ابوظہبی، چین نے پاکستان کی امداد کا اعلان بھی کیا لیکن اقتصادی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے مصر تھے کہ بالآخر حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا اور خود نگران حکومت کے دور میں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر یہ کہتی سنائی دے رہی تھیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری ہے اور روپے کی قیمت پر کمپرومائز کرنا پڑے گا۔ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ دوست ممالک کی مدد کے باوجود حکومت آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئی اور خود وزیراعظم عمران خان نے بھی آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات کی۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی حکمران کی سطح پر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی غلامی سے آزادی کا کوئی ارادہ کیونکر نہیں پایا جاتا۔ یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے کہ آئی ایم ایف سے رجوع دراصل معاشی ڈکٹیشن ہے جس پر عمل درآمد کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایک آزاد، خود مختار ملک کے اندر ایسے ماہرین موجود نہیں جو ملکی مفاد میں اپنی اقتصادی حکمت عملی طے کر پائیں گے اور کیا حکومتی سطح پر کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو آئی ایم ایف کے چنگل سے نجات چاہتے ہیں۔ لیکن حالات کا رخ یہ بتا رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے نجات اور اس سے رجوع نہ کرنے کا عزم رکھنے والی حکومت اپنے تمام تر اقتصادی و معاشی معاملات آئی ایم ایف کے سپرد کرتی نظر آ رہی ہے۔ وزیر خزانہ حفیظ شیخ سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر براہ راست آئی ایم ایف سے منسلک رہے ہیں اور اب ایف بی آر کا چیئرمین ایک ایسے شخص کو لگایا گیا ہے جس کے حوالے سے نیب کے مقدمات کی اطلاعات ہیں یہ اقتصادی ٹیم کیا عوام کی حالت زار کا ادراک رکھتی ہے ؟ کیا انہیں معلوم ہے کہ مسائل زدہ عوام کی گزر بسر کیسے ہو رہی ہے۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد کوئی ایسا دن نہیں گزرا کہ عوام کیلئے کوئی خیر کی خبر ہو۔ اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں لگنے والی آگ، بجلی، گیس اور پیٹرولیم کی قیمتوں کے نتیجہ میں لگنے والے جھٹکوں نے ان پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ ان کیلئے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ چکے ہیں اور عوام کے مینڈیٹ کی داعی حکومت نے کیا کیا ؟ عالمی مالیاتی اداروں کی ملازمت اور کنسلٹنسی کرنے والے ماہرین معیشت پاکستان کی اقتصادی پالیسی سازی کے ذمہ دار بن گئے۔ دوسری جانب حکومتی اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ایک خاص بلکہ عالمی ایجنڈا کے تحت ہو رہا ہے۔ پاکستان جو ایشیائی ٹائیگر بننے کے خواب دیکھ رہا تھا اس کی گردن دبوچنے اور اسے سرنڈر کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سیاسی محاذ پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے جائز ناجائز ہتھکنڈوں کی بھرمار ہے اور اس رجحان کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ عوام پس رہے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہر آنے والے دن میں خود کشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اگر حکومت نے ذمہ داری کا ثبوت نہ دیا اور پاکستان اور اہلیان پاکستان کو آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو یہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا اور ایسا کرنے والوں کو اس حوالے سے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کے حوالے سے ملک کے اعلیٰ سطحی اقتصادی و سیاسی حلقوں میں یہ خدشات عام ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کا مقصد چین پاکستان تعلقات اور سی پیک کے فوائد سے پاکستان کو محروم رکھا جانا ہے اس صورتحال میں سیاسی و اقتصادی آزادی کے بغیر غربت و افلاس کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔