پلوامہ واقعہ: عالمی قوتیں پاکستان پر الزام کو مشکوک سمجھتی ہیں

Last Updated On 25 February,2019 02:03 pm

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بیان کے جواب میں ایک مرتبہ پھر اس مؤقف کا اظہار کیا کہ پلوامہ واقعہ پر اپنے بیان پر قائم ہوں اگر بھارت شواہد فراہم کرے تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کیلئے تیار ہیں البتہ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ نریندر مودی سے اپنی ملاقات میں اس وعدہ پر قائم ہوں کہ غربت کے خاتمہ کو ہمیں اولین ترجیح رکھنا چاہئے لہٰذا وہ امن عمل کو موقع دیں۔

دوسری جانب سپہ سالار اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے حوالے سے ورکنگ باؤنڈریز پر اپنے جوانوں کے ساتھ ملتے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے آنے والے مؤقف سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک طے شدہ حکمت عملی پر گامزن ہے جس کی بنیاد امن کیلئے ڈائیلاگ اور جارحیت کی صورت میں مؤثر جواب پر رکھی گئی ہے، پاکستان کی جانب سے اختیار کئے جانے والے حقیقت پسندانہ طرز عمل کے اثرات نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ عالمی سطح پر اہم قوتیں جو پہلے کسی بھی واقعہ پر بھارت کے ساتھ ہم زبان نظر آتی تھیں، اب انہوں نے پلوامہ واقعہ کے بعد بھارتی مؤقف کی تائید نہیں کی۔ البتہ انہوں نے دونوں ممالک کو مسائل کے حل کا مشورہ دیا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ نریندر مودی کی جانب سے پلوامہ واقعہ پر بلا سوچے سمجھے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کو وہ مشکوک سمجھتے ہیں اور اس بنا پر وہ دو طرفہ مذاکرات پر زور دے رہے ہیں لیکن بھارت کی الزام تراشی کے جواز میں پاکستانی مؤقف خصوصاً شواہد کی فراہمی پر مؤثر تحقیقات اور ایشوز کے حل کیلئے ڈائیلاگ کو پذیرائی ملی ہے اور خود بھارت کے اندر جنگی جنون میں کچھ ٹھہراؤآتا محسوس ہو رہا ہے وہ میڈیا جو دو روز قبل تک جلتی پر تیل ڈالنے کا غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کئے ہوئے تھا اب اس پر خود نریندر مودی کے سیاسی عزائم اور الزام تراشی پر مختلف آرا آنا شروع ہو چکی ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی انہیں تائید نہ ملنے کے اثرات خود ان کی سیاست اور میڈیا پر نظر آ رہے ہیں۔

عالمی طاقتوں کی جانب سے پذیرائی نہ ملنے کے عمل نے بھارت کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا، لیکن بنیادی بات سوچنے کی یہ ہے کہ کیا نریندر مودی اپنی جانب سے اختیار کئے جانے والے مؤقف پر پسپائی اختیار کریں گے اور اس پسپائی کی قیمت انہیں کیا ادا کرنا ہوگی کیونکہ خود ہندوستان کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہرالیکشن سے قبل پاکستان دشمنی اور مسلم دشمنی کو ہوا دے کر ہندو ووٹ بینک پر اثر انداز ہواجاتا ہے اور اس مرتبہ یہ کارگر ہوتا نظر نہیں آ رہا خود پلوامہ واقعہ سے بھارتی حکومت خصوصاً وزیراعظم نریندر مودی کو سخت مشکل نے دو چار کر دیا ہے اور انہیں اندر اور باہر سے کوئی خاطر خواہ مدد نہیں مل رہی۔ پاکستان کے ذمہ دارانہ طرز عمل نے پاکستان کی علاقائی اہمیت و حیثیت میں اضافہ کیا ہے، صدر ٹرمپ نے پاک بھارت کشیدگی کے خاتمہ پر زور دیا ہے۔ ایک جانب جہاں بھارتی سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پر افسوس ظاہر کیا ہے تو دوسری جانب پاکستانی قیادت سے ملاقات کا امکان ظاہر کر کے اپنے کردار کا عندیہ دیا ہے ۔ لہٰذا امریکی صدر کو اس مسئلے پر آگے آنا ہوگا اور مسئلہ کشمیر سمیت دیگر ایشوز پر مذاکرات کے عمل کو یقینی بنانا پڑے گا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس صورتحال میں صرف امریکی اثر و رسوخ ہی نریندر مودی کے جنگی جنون کا مداوا کر سکتا ہے ، اس صورتحال میں امریکہ کو مقبوضہ وادی کے اندر پیدا شدہ صورتحال اور رجحان کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر کوئی مؤثر دباؤ ضرور ڈالنا پڑے گا۔ دشمن پر سوار پاکستانی بخار کسی حد تک اترنا شروع ہوا ہے لیکن پھر بھی ہمیں دشمن سے الرٹ رہنے کی ضرورت ہے جنگ سے بچنے کا بہترین طریقہ جنگ کی تیاری ہوتا ہے اور پاکستان نے دنیا پر یہ ظاہر کر دیا ہے کہ جنگ نہیں چاہتے پلوامہ واقعہ پر تحقیقات کیلئے تیار ہیں کشمیر سمیت اہم ایشوز پر مذاکرات کے خواہاں ہیں لیکن اگر بھارت جارحیت کی غلطی کرتا ہے تو پھر اسے لینے کے دینے پڑیں گے کیونکہ آج کا پاکستان پچھلی صدی کی نسبت بالکل مختلف ہے ۔ ایک نیوکلیئر پاکستان کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور علاقائی صورتحال میں وہ اپنے مثبت کردار کے ذریعہ ایسا ماحول کیلئے سرگرم ہے جس میں اقتصادی و معاشی ترقی کا سفر تیز ہو اور امن کے قیام کے ساتھ خطے کے عوام کی حالت زار میں بہتری آئے ۔