بھارت سے پانی نہیں سیلاب آتا ہے

Last Updated On 23 February,2019 09:49 am

لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ ) پلوامہ حملے نے بھارت میں بد حواسیوں کی کیفیت کو جنم دیا ہے۔ اس کا نشانہ پاکستان بنا ہے۔ پاکستان کو کبھی ایک انداز کی دھمکی دی گئی کبھی مخبوط الحواسی میں پاکستان سے کہا گیا کہ اس کا پانی روک دیا جائے گا یہ تازہ ترین دھمکی کل بھارت کے آبی امور کے وزیر نے دی ہے اور کہا بھارت پاکستان کے حصے کا پانی بند کر دے گا اور اسے دریائے جمنا میں گرا دیں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھارت کی خام خیالی ہے اور بھارت کی یہ احمقانہ دھمکی ہے اس حوالے سے کمشنر انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک ٹیکنیکل بات ہے، 1960 میں انڈس واٹر معاہدہ کے تحت تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کے استعمال کے لئے دے دیا گیا، یہ اوسطاً 32 ملین ایکڑ فٹ سالانہ تھا، یہ ایک بارگین تھی، اس میں 12 ملین ایکڑ فٹ اس وقت پاکستان کے زیر استعمال تھا۔ پاکستان نے اپنے حصے کا پانی سرنڈر کیا تھا اس کے بدلے میں انڈس بیسن ری پلیسمنٹ ورک بنائے گئے جس کے تحت منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے گئے تھے علاوہ ازیں 9 لنک کینال بنائی گئیں، یہ رابطہ نہریں مغربی دریاؤں کے پانی کو منتقل کرتی ہیں اس کے ساتھ پانچ بیراج بنائے گئے چونکہ معاہدے کے تحت پانی بھارت کو دے دیا گیا ہے اس لئے یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی ہمسایہ ملک ہمارے مغربی دریاؤں کے بارے میں بات کرے تو اس کی مداخلت نا قابل قبول ہو گی، اسی طرح ہم پڑوسی ملک کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔

سید مہر علی شاہ نے کہا 1974 سے پاکستان کا مشرقی دریاؤں پر انحصار نہیں ہے۔ تربیلا ڈیم کی تکمیل کے بعد ہم مشرقی دریاؤں کے کمان ایریا کو مغربی دریاؤں سے فیڈ کر رہے ہیں یہ بھارت کی الیکشن مہم ہو سکتی ہے۔ بھارت 99 فیصد پانی کا رخ موڑ چکا ہے اور ہمارے پاس بھارت سے بڑی قلیل مقدار میں پانی آتا ہے اور وہ بھی سیلاب کے دنوں میں آتا ہے پنجاب ایری گیشن ڈیٹا کے مطابق 2018 میں دریائے راوی میں ایک ملین ایکڑ فٹ پانی آیا تھا۔ ہمارے مغربی دریاؤں کا اوسطاً سالانہ پانی 137 ملین ایکڑ فٹ ہے، ایک ملین ایکڑ فٹ کا 80 فیصد پانی سیلاب کے مہینوں میں آیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آبی وسائل کا اچھے طریقے سے انتظام کیا جائے۔ بلوچستان میں حب ڈیم، میرانی ڈیم اور دیگر چھوٹے ڈیم بھر چکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خشک سالی کے دنوں کیلئے ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کا انفراسٹرکچر ہو۔