لاہور: ( روزنامہ دنیا) میزبان'د نیا کامران خان کے ساتھ' کے مطابق قرائن یہ بتا رہے اور باخبر ذرائع اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ 2019 آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے لئے اچھا نہیں ہوگا، آصف زرداری کو بھی اس کا اندازہ ہوگیا ہے۔ اس لئے پچھلے دو دنوں میں انہو ں نے حیدر آباد اور ٹنڈو الہ یار میں دو جلسوں سے خطاب کیا، وہ ریاستی اداروں پر آوازیں کس رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں جن کی نوکری تین سال کے لئے ہوتی ہے ان کو قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے کا کیا حق ہے َ۔ پاکستان میں ماہرین کے لئے یہ جاننا مشکل نہیں ہے کہ تین سال کی مدت پاکستان کی اہم شخصیات میں سے کس کے پاس ہوتی ہے۔
آصف زرداری 2015 میں بھی اس جانب اشارہ کر چکے ہیں، انہو ں نے اعلیٰ عدلیہ کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ ‘‘کبھی آپ یہاں پہنچ جاتے ہیں کبھی آپ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ آپ 9 لاکھ زیر التوا کیس دیکھیں ’’میزبان نے بتایا کہ اس کا اہم پس منظر ہے۔ اگلے پیر کو جے آئی ٹی منی لانڈرنگ کیس میں سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کرانے جا رہی ہے۔ منی لانڈرنگ کی یہ تہلکہ خیز تحقیقات مکمل ہو چکی ہے، آصف زرداری بھانپ گئے ہیں کہ جے آئی ٹی ملبہ ان پر گرے گا، جے آئی ٹی منی لانڈرنگ میں 32 افراد کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے۔ زرداری اور فریال تالپور ان میں شامل ہیں۔ اومنی گروپ کے انور مجید، ان کے بیٹے اے جی مجید گرفتار ہیں۔ زیر حراست اومنی گروپ کے چیف فنانشل افسر اسلم مسعود نے جدہ میں پاکستانی حکام کو وڈیو پیغام میں چشم کشا انکشافات کئے ہیں۔ وہ اومنی گروپ کے اشاروں پر چلنے والے درجنوں جعلی اکاؤنٹس کا کچا چٹھہ کھول چکے ہیں۔ یہ انتہائی سنسنی خیز انکشافات ہیں جے آئی ٹی نے ٹھوس شواہد حاصل کر لئے ہیں اور اپنی اس رپورٹ میں بتایا ہے کہ سندھ میں رشوت ستانی سے موصول رقوم مربوط سکیم کے ذریعے کیسے بے نامی اکائونٹس میں پہنچتی تھیں اور وہاں سے اومنی گروپ کے کاروبار اور دوسرے اثاثوں میں سرایت کر جاتی تھیں، اے جی مجید یہ رقوم ہنڈی اور حوالے کے ذریعے دبئی منتقل کرتا رہا ہے جس سے لندن، کینیڈا، فرانس اور دبئی وغیرہ میں باقاعدہ اثاثے بنائے گئے ہیں، جے آئی ٹی نے ان اثاثوں کی تفصیلات بھی حاصل کر لی ہیں۔
کیش کے تھیلوں کا روزانہ اندازہ چار سے پانچ کروڑ روپے ہوتا تھا، اس سے منسلک ایک شخص کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سیاسی سرپرستی میں بینکوں سے مشکوک اکاؤنٹس پر 80 ارب روپے کے قرضے حاصل کئے گئے۔ ان قرضوں پر سود کی ادائیگی رشوت سے حاصل کردہ رقوم سے کی گئی، اومنی گروپ کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے سیاسی دباؤ پر بینکوں نے قرضے ری شیڈول کئے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اومنی گروپ بلاول ہائوس کراچی، اسلام آباد، نوڈیرو اور نواب شاہ کے لئے ایک کروڑ 30 لاکھ ماہانہ اخراجات کی ادائیگی کرتا تھا۔ بچوں کی سالگرہ کے کیک بھی انہی اکاؤنٹس سے خریدے جاتے تھے۔ ماڈل ایان علی کا بھی دلچسپ کردار سامنے آیا ہے، تحقیقات کے مطابق جعلی بینک اکاؤنٹس میں ایک زرداری گروپ کا بھی ہے، اسی سے ایان علی کو ادائیگی کی گئی تھی، پچھلے ماہ ایان علی نے ایک ٹویٹ میں وڈیو بھی شیئر کی تھی جس میں ایان علی نے بتایا تھا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر سابق صدر کے پرسنل اسٹنٹ مشتاق احمد اور رحمان ملک کے بھائی کو بھی میرے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے، ایان علی نے سوال اٹھایا تھا کہ ان دونوں افراد کو میرے ساتھ کیوں گرفتار نہیں کیا گیا۔ ایان علی کا کہنا تھا در اصل یہ کسی اور کا کام تھا جو وہ کیا کرتی تھی۔
اس معاملے میں مشتاق احمد بڑا اہم کردار ہے اور اس کی تلاش جاری ہے۔ خیال ہے وہ ملک سے فرار ہوچکا ہے، آصف زرداری جب 2008 میں صدر بنے تھے تو مشتاق احمد نے ایوان صدر میں نوکری حاصل کی تھی وہ گریڈ 12 میں سٹینوگرافر کی حیثیت سے داخل ہوا ،پھر اسے گریڈ 16 میں ترقی دے دی گئی، اس کے بعد وہ آصف زرداری کے ساتھ منسلک رہا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ 24 دسمبر کو سپریم کورٹ میں پیش کی جائے گی اور اس کے بعد کے مراحل بہت اہم ہوں گے۔ آصف زرداری اور فریال تالپور جمعہ تک عبوری ضمانت پر ہیں۔ بینکنگ کورٹ سے ان کی عبوری ضمانت میں تین تین بار توسیع ہوچکی ہے اور اگر اس بار بینکنگ کورٹ نے ضمانت میں توسیع نہ کی تو یہ بات خارج از امکان نہیں کہ گرفتار ہوں گے۔
آصف زرداری کی حالیہ سرگرمیوں کے حوالے سے سینئر صحافی اعجاز مہر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زرداری بڑے زیرک سیاستدان ہیں وہ پہلے مفاہمت کی بات کر رہے تھے لیکن کچھ دنوں سے وہ بہت سرگرم ہیں اور جارحانہ موڈ میں ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان پر پکا ہاتھ پڑنے والا ہے، وہ لوگوں میں جا کر ان کو متحرک کر رہے ہیں۔ اس سوال پر کہ اگر انہیں گرفتار کر لیا گیا تو سندھ میں کیا رد عمل ہوگا، اعجاز مہر نے کہا کہ یہ بھٹو یا بے نظیر جیسا رد عمل نہیں ہوگا، زرداری کا اس طرح کا لیول نہیں کہ لوگ توڑ پھوڑ کریں یا ان کے لئے جیل جائیں گے تا ہم زرداری نے پارٹی کے بچے کچھے نیٹ ورک کو متحرک کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی ان کی کوآرڈینیشن ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے معاملے پر پنجاب سے سیاسی رد عمل نہیں آیا، زرداری کا کیس تو ان سے بھی کمزور ہے۔ ان کے معاملے میں عوامی سطح پر کوئی بڑا رد عمل نظر نہیں آتا تاہم ان کی جماعت کے لوگ جنہوں نے ان سے فائدے حاصل کئے کسی حد تک ر دعمل کا اظہار کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گورننس اور کرپشن سندھ کا بڑا مسئلہ ہے میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اور کرپشن شاہانہ انداز میں ہوئی ہے۔
میزبان نے بتایا کہ آصف زرداری کے دست راست انور مجید اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جیسے جیسے اومنی گروپ کا کاروباری حجم بڑھا سندھ حکومت کا خزانہ اومنی گروپ کی پیاس بجھاتا رہا۔ سید مراد علی شاہ اور اومنی گروپ کے زبردست گٹھ جوڑ کی کہانی ہے جس میں مراد علی شاہ نے سندھ کے مشیر، صوبائی وزیر سے لے کر وزیر اعلیٰ سندھ کی حیثیت سے اومنی گروپ کا ہاتھ تھامے رکھا۔ پہلے دن سے آج تک اومنی گروپ کا ہاتھ مراد علی شاہ کے ہاتھ میں ہے۔ جیسے جیسے اومنی گروپ کا کاروبار اور حجم بڑھا، مراد علی شاہ کی حکومتی پوزیشن بھی بڑھتی چلی گئی۔ مارچ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے سے قبل اومنی گروپ کی صرف ایک شوگر مل اور دو کمپنیاں تھیں، اب اومنی گروپ کی 91 کمپنیاں، صنعتیں، فیکٹریاں اور اثاثے ہیں یعنی اس کے 95 فیصد اثاثے پچھلے 11 برسوں کی پیداوار ہیں۔ دوسری جانب مراد علی شاہ 2008 میں صرف وزیر ریونیو تھے 2010 میں ان کو سندھ کے سات محکمے مل گئے، جن میں محکمہ خزانہ، آبپاشی، توانائی، بورڈ آف انویسٹمنٹ، کول مائننگ، محکمہ منصوبہ بندی و ترقی شامل ہیں۔ اور شاید یہ سندھ حکومت کا ریکارڈ ہے کہ ایک وزیر کے پاس سات محکمے رہے، اس کے پیچھے اومنی گروپ کا جادو تھا جو مراد علی شاہ کو توانا سے توانا تر کرتا گیا اور مراد علی شاہ اومنی کو توانا سے توانا کرتے چلے گئے۔ یہ سلسلہ 2008 سے ہی شروع ہوگیا۔ دادو اور ٹھٹھہ میں سکاری شوگر ملز کوڑیوں کے بھائو صرف 22 کروڑ میں اس کو تھما دی گئیں اب سندھ کی 35 شوگر ملز سے آدھی اومنی گروپ کا اثاثہ ہیں اور بلاشبہ اومنی گروپ سندھ کا شوگر کنگ ہے۔ جس انداز سے سندھ کے سرکاری خزانوں کا منہ کھولا گیا اس میں مراد علی شاہ کا اہم کردار رہا۔ اس دوران مختلف سکیمیں سامنے آئیں جن کا فائدہ اومنی گروپ کو ہی ہوا ہے۔
پچھلے 11 سالوں میں 11 ارب روپے سبسڈی کے نام پر منتقل ہوئے جس کا بڑا حصہ اومنی گروپ کو گیا ہے۔ ان نوازشات اور مراعات پر کسی نہ کسی حیثیت سے مراد علی شاہ کے دستخط رہے ہیں اومنی کو جہاں فائدہ ہوا ہے وہاں کہیں نہ کہیں مراد علی شاہ کے قدم ضرور نظر آئے۔ دنیا نیوز کے نمائندہ خصوصی امتیاز کھوکھر نے اس کی مزید تفصیل دیتے ہوئے بتایا کہ اس کی شروعات 2008 سے ہوئی ہیں۔ مراد علی شاہ کے پاس ریونیو کی وزارت تھی۔ ان کوخزانے کی وزارت دی گئی آر او پلانٹ اور دیگر کمپنیوں کو اربوں روپے کی پیشگی ادائیگیاں کی گئیں جن کا حجم 20 ارب روپے بنتا ہے اومنی گروپ کو ٹھٹھہ شوگر مل جس کے 70 کروڑ کے اثاثے تھے اومنی گروپ کو 13 کروڑ کی دے دی گئی۔ جے آئی ٹی نے جو تفصیلات طلب کی ہیں ان کا جعلی اور بے نامی اکاؤنٹس سے معاملہ ملتا ہے اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی موجودگی میں اسے مسئلہ درپیش ہے اسے نا مکمل معلومات دی جا رہی ہیں۔ اڈیالہ جیل جانے سے پہلے اے جی مجید پوری سندھ حکومت چلا رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ نیب نے مراد علی شاہ کے خلاف چار کیسز میں تحقیقات شروع کر دی ہیں، ایک کیس میں ان کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا ہے یہ معاملہ مراد علی شاہ کے لئے کافی مشکل ہوگا۔