اسلام آباد: (دنیا نیوز) نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے حتمی دلائل کا آغاز کر دیا۔ نیب ریفرنس میں آج دلائل مکمل اور فیصلہ محفوظ ہونے کا امکان ہے۔
نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا جے آئی ٹی رپورٹ سے متعلق العزیزیہ ریفرنس والے حتمی دلائل اپناتے ہیں، فلیگ شپ سے نواز شریف کو 7 لاکھ 80 ہزار درہم کے مالی فوائد پہنچے، رقم کی منتقلی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ سردار مظفر نے کہا اس ریفرنس میں باقی دلائل پراسیکیوٹر ملک اصغر دیں گے۔ نیب پراسیکوٹر ملک اصغر نے کہا نواز شریف کے بیٹوں نے بے نامی کے طور پر جائیدادیں بنائیں۔ فریقین کے آج دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ ہونیکا امکان ہے۔
یاد رہے گزشتہ روز کیپٹل ایف زیڈ ای اور نواز شریف کے اقامے پر دلائل دیتے ہوئے خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جافزا دستاویزات قانونی شہادت کے مطابق تصدیق شدہ نہیں کیونکہ قانون کے مطابق بیرون ملک سے آنے والی دستاویزات یا تو اصل ہونگی یا پھر قانون کے مطابق تصدیق شدہ ہو نگی، کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملازمت سے متعلق دستاویز صرف ایک خط ہے۔
جج ارشد ملک نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کسی موقع پر ان دستاویزات سے لاتعلقی کا اظہار کیا ؟ خواجہ حارث نے کہا ہم کہتے ہیں یہ جعلی اور من گھڑت دستاویزات ہیں، ملزم کو شواہد سے متعلق شکوک پر ہی بات کرنا ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے مخصوص مدت کے لیے کیپٹل ایف زیڈ ای کے ملازم کی حیثیت سے ویزا لیا، ہم صرف یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان دستاویزات کی حیثیت 161 کے بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔
جج ارشد ملک نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ نواز شریف نے دبئی کا ویزا کب لیا، جس پر نواز شریف کے وکیل نے بتایا کہ انہوں نے 18 جون 2006 کو ویزے کی درخواست دی اور 8 جولائی 2006 کو نواز شریف نے کیپٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت کے ریکارڈ کے ساتھ دوسری درخواست دی۔ خواجہ حارث نے واضح کیا کہ ویزا جاری ہونے کی تاریخ ان کو یاد نہیں، بعد میں بتا دیں گے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کہ نواز شریف نے جھوٹ بولا، عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں اثاثے چھپانے کی بات کی ہے۔
جج ارشد ملک نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ نے تصدیق کے لیے کوئی کوشش کی تھی ؟ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہم نے ایم ایل اے بھیجا تھا، کوئی جواب ہی نہیں آیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ میرے علم میں یہ ہے کہ انہوں نے کوئی ایم ایل اے نہیں بھیجا۔ انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کی تنخواہ سے متعلق دستاویزات سکرین شاٹس ہیں، یہ سکرین شاٹس والی دستاویزات بھی تصدیق شدہ نہیں ہیں، ان دستاویز پر تو کوئی مہر نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہاب سلطان سے دستاویزات لائی گئیں لیکن ان کا بیان انہوں نے ریکارڈ نہیں کیا، یہ بیرون ملک جا کر بیان ریکارڈ کر سکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ استغاثہ کی دی گئی دستاویزات آپس میں ہی نہیں ملتیں۔
خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس میں واجد ضیا کا بیان بھی پڑھ کر سنایا، واجد ضیا نے خود کہا کہ انہوں نے ان دستاویزات کی یو اے ای سے تصدیق کی کوشش نہیں کی، دستاویز میں نواز شریف کے عربی اور انگریزی نام میں بھی فرق تھا، واجد ضیا نے اس موقع پر ازخود بیان کا سہارا لیا، ان کا کہنا تھا کہ عربی میں نام صرف محمد لکھا تھا۔ جج ارشد ملک نے کہا کہ عرب ممالک میں تو ویسے بھی سب کو محمد محمد ہی پکار رہے ہوتے ہیں۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ استغاثہ کا کہنا ہے نواز شریف کا نام چونکہ بطور چیئرمین بورڈ لکھا ہے تو ان کا تعلق ملکیت سے ہے، یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کا تنخواہ لینا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اتنا بڑا مسئلہ تھا تو جاننا کیوں ضروری نہیں سمجھا گیا کہ کس ذریعے سے ملازمین کو تنخواہ دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ سے متعلق کسی بینک کی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔
درخواستوں کے ساتھ منسلک دستاویزات پڑھنے کیلئے خواجہ حارث نے عدسہ بھی دیا اور عدالت سے کہا کہ آپ دیکھیں اس کے اندر نواز شریف کا نام موجود ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ جیسے چاند دیکھنے کیلئے عدسے لگاتے ہیں ویسے کر رہے ہیں، اس پر وکیل صفائی نے کہا کہ میں صرف دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہم نے کچھ چھپا نہیں رکھا، اس کے بعد جو کچھ ہوا تاریخ اس پر خود بولے گی۔ احتساب عدالت کے جج نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا تنخواہ والے معاملے کی اب بھی کوئی اہمیت ہے ؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اس کیس کی حد تک تنخواہ والے معاملے کی اہمیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی تو لوگوں نے انہیں شہید کہنا شروع کیا، ایسے لوگوں پر لاہور میں توہین عدالت کا مقدمہ ہو گیا تھا۔