تخت لاہور کی جنگ؟ ....

Last Updated On 12 October,2018 08:57 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) تخت لاہور پر قبضہ کرنے کی کوششیں صدیوں سے ہوتی رہیں، کچھ کامیاب ہوئیں تو کچھ ناکام، گزشتہ چالیس سال میں تخت لاہور پر زیادہ عرصہ نواز شریف اور شہباز شریف کا ہی قبضہ رہا۔ 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد اب عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف تخت لاہور پر براجمان ہے، عثمان بزدار اس وقت وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ ایسے میں چند سوال سیاسی حلقوں میں مسلسل زیر بحث ہیں۔ کیا عثمان بزدار ایک قابل اور اہل وزیر اعلٰی ہیں ؟ کیا حقیقت میں وزیر اعلیٰ کا قلمدان ان کے ہاتھ میں ہے یا پھر ان کی ڈوریں اسلام آباد سے خود عمران خان ہلا رہے ہیں ؟ موجودہ پنجاب حکومت میں گورنر محمد سرور، سپیکر چودھری پرویز الٰہی اور سینئر وزیر علیم خان کا کیا کردار ہے ؟ حکومت کے مختلف لوگوں اور پنجاب حکومت کے افسران سے بات کرنے کے بعد انتہائی دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں۔

اس وقت کم و پیش چار مختلف طاقت کے مراکز پنجاب میں کام کر رہے ہیں اور طاقت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان بحیثیت چیئرمین پاکستان تحریک انصاف پوری طرح اپنے منتخب شدہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے پیچھے کھڑے ہیں اور عثمان بزدار اسی اعتماد کی بدولت اب تک کھڑے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ وزارت اعلیٰ کے رموز سے واقفیت حاصل کر تے جارہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پہلے دن والے عثمان بزداراور آج کے بزدار میں بہت بڑا فرق آ چکا ہے۔ عثمان بزدار اپنے تمام مشکل فیصلوں میں اسلام آباد سے مشاورت کرتے ہیں لیکن یہ بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک خاتون رکن پنجاب اسمبلی کے مطابق عثمان بزدار ایک کہنہ مشق سیاست دان ہیں جو آنے والے دنوں میں اپنے متعلق تمام تبصرے اور تجزیے غلط ثابت کر دیں گے۔

طاقت کا دوسرا مرکز سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی ہیں۔ 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ق کا تقریبا صفایا ہوگیا تھا۔ 2018 کے انتخابات میں اگر چودھری برادران عمران خان کے ساتھ ہاتھ نہ ملاتے تو ان کے لئے اپنی خاندانی سیٹیں بھی بچانا مشکل ہوجاتا۔ واقفان حال کے مطابق پرویز الٰہی اپنی پارٹی کی ترتیب نو وزیراعلیٰ کے ذریعے کرتے نظر آتے ہیں، چودھری صاحبان اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ موجودہ وقت میں اگر اپنی سیاست بچانی ہے تو اس کا راستہ وزیراعلیٰ ہاؤس سے گزرتا ہے، اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام ہوں یا مرضی کے افسران کی تعیناتی وزیراعلیٰ کی آشیرباد کے بنا ممکن نہیں۔ چودھری برادران کی پنجاب کی سیاست پر گہری نظر اور مشاہدہ وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اشتراک اور تعاون کا یہ عمل دونوں اطراف کی ضرورت کے عین مطابق ہے، تحریک انصاف کو بھی پنجاب میں مسلم لیگ ق کی سپورٹ درکار ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پرویز الٰہی وہ شخصیت ہیں جو اپنے تجربے کو استعمال میں لاکر آنے والے مہینوں میں پنجاب کی سیاست کا ایک انتہائی اہم کردار کہلائیں گے۔ جوڑ توڑ کے ماہر جانے والے چودھری برادران نون لیگ کے گلے کی ہڈی بنے رہیں گے کیونکہ پنجاب میں ہمیشہ جوڑ توڑ کی سیاست ہوتی ہے اگر آنے والے دنوں میں مسلم لیگ نون اپنی عددی قوت کی بنیاد پر سیاسی چال چلنے کی کوشش کرتی ہے تو مسلم لیگ ق کی اہمیت اور بھی بڑھ جائے گی۔

گورنر پنجاب چودھری محمد سرور طاقت کا تیسرا اہم مرکز ہیں۔ نون لیگ سے چودھری سرور کی علیحدگی کی وجہ ان کی شہباز شریف کے ساتھ حکومت کے معاملات میں حصہ لینے کی خواہش تھی اور انہیں اس کی بڑی قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ اس خواہش کی تکمیل میاں شہباز شریف کی موجودگی میں تو نہ کر سکے لیکن اب ایک با ر پھر حرکت میں ہیں اور آئی جی پنجاب کی تبدیلی کے پیچھے بھی ان کے نام کا لیا جاتا ہے اور وہ عثمان بزدار کے ساتھ ورکنگ ریلیشن بنانے میں مصروف ہیں اور اطلاعات کے مطابق وہ اپنے مشن کی تکمیل کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں ، اب دیکھنا ہوگا کہ عثمان بزدار اپنے اختیارات اور طاقت میں کس حد تک چودھری سرور کو حصے دار بناتے ہیں۔ سینئر وزیر علیم خان بھی اس وقت تخت لاہور کا اہم ستون سمجھتے جاتے ہیں، بلدیات کے وزیر ہونے کے باعث ان کا اثرورسوخ دیگر وزیروں سے زیادہ ہے جبکہ پنجاب کے بااثر حکومتی حلقوں کے مطابق اس وقت علیم خان پنجاب کے ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ ہیں۔

بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ پنجاب کی بیوروکریسی بھی علیم خان سے اچھے تعلقات کے باعث احکامات کیلئے انہی کی طرف دیکھتی ہے۔ اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا سارے معاملات اسی طرح چلیں گے ؟ میرے خیال میں اگر عمران خان عثمان بزدار کے پیچھے اسی طرح کھڑے رہے جس طرح انہوں نے لاہور کی پریس کانفرنس کے دوران اظہار کیا، تو کچھ عرصے بعد عثمان بزدار اپنی مکمل طاقت حاصل کرنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ اگر ایسی نوبت آئی تو پاکستان تحریک انصاف میں اندرونی تناو پیدا ہو گا اور آخر کار عمران خان کو کسی ایک پر ہاتھ رکھ کر کچھ کو دروازے کا راستہ دکھانا پڑے گا۔

تحریر: خاور گھمن