لاہور(تجزیہ: سلمان غنی) وزیر اعظم سے قبل سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہو گا جس کے نتائج اپوزیشن کیلئے اپ سیٹ ہو سکتے ہیں، اس سلسلے میں اراکین اسمبلی سے رابطے شروع ہو چکے ہیں۔
خصوصاً پنجاب میں مسلم لیگ ن کے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے اراکین توجہ کا مرکز ہیں، سپیکر، ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے مرحلہ پر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو ہدف بنانے کا مقصد ان کی صفوں میں دراڑ سامنے لانا ہے۔ اپوزیشن کے ذمہ دار ذرائع نے ایسے رابطوں کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ عناصر اپنے مخصوص مفادات کیلئے اس مذموم عمل میں سرگرم ہیں مگر ہم انہیں ناکام بنائیں گے۔
ان ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے اندر شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان سرد مہری اور سیاسی چپقلش بھی ان کوششوں کی وجہ ہو سکتی ہے چونکہ اپوزیشن سمجھتی ہے کہ سپیکر ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے لئے خفیہ رائے شماری ہونی ہے اور پی ٹی آئی کے اندر اختلافات اور تقسیم کا عمل وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں خطرے کی گھنٹی نہ بجا دے۔ لہٰذا پی ٹی آئی نفسیاتی طور پر عمران خان کے وزارت عظمیٰ کیلئے انتخاب سے پہلے سپیکر، ڈپٹی سپیکر کیلئے اتنی برتری حاصل کرنا چاہتی ہے جس سے اپوزیشن کا مورال قومی اسمبلی کے اطراف میں کمزور پڑ جائے۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع بھی یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی شخصیت پر تو اراکین اسمبلی کا حل اتفاق ہے۔ مگر سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے ووٹوں پر اختلافات رنگ بھی غالب آ سکتا ہے۔ لہٰذا اپوزیشن کے لوگوں سے رابطے ان خطرات اور خدشات سے نمٹنے کا پلان ہی ہے۔