یوم مئی....محنت کشوں کی قربانیوں کا اعتراف

Published On 01 May,2025 11:53 am

لاہور: (اقصیٰ ناصر علی) یومِ مئی، یا عالمی یومِ مزدور ایک ایسا دن ہے جس کا مقصد محنت کشوں کی قربانیوں اور ان کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، اس دن کو دنیا بھر میں محنت کشوں کی جدوجہد کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے۔

یومِ مئی کی تاریخ ایک انتہائی اہم اور دل دہلا دینے والے واقعہ سے جڑی ہے جو امریکا کے شہر شکاگو میں سال 1886ء میں پیش آیا تھا، جب محنت کشوں نے کام کے بہتر حالات، کم اوقاتِ کار اور مناسب اُجرت کیلئے احتجاج کیا، 1886ء میں شکاگو میں لاکھوں محنت کشوں نے آٹھ گھنٹے کام کرنے کے حق کیلئے ہڑتال کی، اس وقت امریکا میں ورکنگ ڈے کا دورانیہ 10 سے 12 گھنٹے ہوتا تھا اور محنت کشوں کی زندگی کا معیار ناگفتہ بہ تھا، محنت کشوں کے اس مطالبے کو اُن کی زندگیوں کو ایک نیا موڑ دینے کیلئے پیش کیا گیا تھا۔

یہ تحریک اس وقت لہو رنگ ہوگئی جب 4 مئی 1886ء کو شکاگو میں ہونے والے ایک مظاہرے میں کسی نامعلوم شخص نے بم پھینک دیا، جس میں کئی افراد زخمی اور ہلاک ہوگئے، اس بم دھماکے کے بعد پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں مزید افراد جاں سے گئے، اس واقعے کے بعد محنت کشوں کی جدوجہد اور ان کے حقوق کی جانب عالمی توجہ مرکوز ہوئی، شکاگو کے اس سانحے کے نتیجے میں محنت کشوں کی حمایت میں کئی ممالک نے یومِ مئی کو عالمی سطح پر منانا شروع کیا۔

یومِ مئی کو محنت کشوں کی جدوجہد کے ایک دن کے طور پر منانے کا باقاعدہ آغاز 1889ء میں ہوا، جب پیرس میں ہونے والی دوسری انٹرنیشنل کانگریس میں اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا فیصلہ کیا گیا، اس دن کا مقصد محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے حالاتِ زندگی میں بہتری لانے کی جدوجہد کی حمایت کرنا تھا۔

اس وقت سے یومِ مئی دنیا بھر میں مختلف طریقوں سے منایا جا رہا ہے، یومِ مئی کو محنت کشوں کی جدوجہد اور ان کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے مظاہرے، اجتماعات، ریلیاں اور سیمینارز منعقد کئے جاتے ہیں، دنیا بھر کے محنت کش اس دن کو اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے، اپنی قربانیوں کو یاد کرنے اور مزید حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے کے طور پر مناتے ہیں۔

یومِ مئی کی اہمیت محنت کشوں کی زندگیوں میں بہتری لانے اور ان کے حقوق کے تحفظ میں ہے، اس دن کو منانے کا مقصد صرف محنت کشوں کے حقوق کی حمایت نہیں بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کو ایک ساتھ مل کر انصاف اور برابری کیلئے جدوجہد کرنے کی ترغیب دینا بھی ہے، محنت کشوں کی جدوجہد کے باعث دنیا کے کئی ممالک میں کام کے اوقات، اُجرت اور کام کے ماحول میں بہتری آئی ہے، تاہم، آج بھی دنیا بھر میں محنت کشوں کو انصاف اور بہتر حالات کیلئے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔

یومِ مئی نہ صرف محنت کشوں کیلئے تجدیدِ عہد کا ایک دن ہے، بلکہ یہ ایک یاد دہانی بھی ہے کہ جب تک دنیا میں تمام محنت کشوں کو برابر کے حقوق حاصل نہیں ہو جاتے، اس دن کی اہمیت برقرار رہے گی، یہ دن دنیا بھر میں انسانیت کے احترام، انصاف اور معاشی مساوات کے حصول کے لئے کی جانے والی جدوجہد کی علامت ہے۔

اس دن کی تاریخ، اس کی حقیقت اور اس کا پیغام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا بہت ضروری ہے، چاہے اس کیلئے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینا پڑیں، دنیا کے مختلف حصوں میں محنت کشوں کی حالت میں تبدیلی لانے کیلئے اس دن کی اہمیت ہر گز کم نہیں ہوئی ہے اور یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ محنت کشوں کی جدوجہد کا سفر ابھی جاری ہے۔

خواتین محنت کشوں کی جدوجہد تاریخ میں ایک اہم باب ہے، جس کا آغاز صنعتی انقلاب کے دور سے ہوا، اس دور میں جب دنیا بھر میں صنعتی دور کا آغاز ہوا تو محنت کشوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، جن میں خواتین کا کردار بھی اہم تھا، لیکن خواتین محنت کشوں کو ہمیشہ اپنے حقوق کی جدوجہد میں صنفی امتیاز کا سامنا رہا ہے، انہیں نہ صرف کم اُجرت، غیر محفوظ کام کے حالات اور طویل اوقاتِ کار کا سامنا رہا بلکہ ان کی محنت کو بھی کم تر سمجھا جاتا رہا۔

صنعتی انقلاب کے دوران خواتین کی محنت کا استعمال بڑی حد تک گھریلو صنعتوں اور کارخانوں میں کیا گیا، انہیں مردوں کے مقابلے میں کم اُجرت دی جاتی تھی، حتیٰ کہ ان کی محنت کا دائرہ بھی محدود تھا، 19 ویں صدی میں جب یورپ اور امریکا میں صنعتی انقلاب نے اپنی جڑیں مضبوط کیں، تو خواتین نے فیکٹریوں اور ورکشاپس میں کام کرنا شروع کیا لیکن ان کی حالت میں بہتری کی کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی، خواتین کو نہ صرف مردوں سے کم اُجرت ملتی تھی بلکہ ان کے کام کرنے کے اوقات بھی طویل تھے۔

خواتین محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد میں ایک اہم لمحہ 1908ء میں آیا جب امریکا کے نیو یارک شہر میں خواتین محنت کشوں نے اپنے حقوق کے حصول کیلئے مظاہرہ کیا، اس مظاہرے میں خواتین نے کم اُجرت، طویل کام کے اوقات اور غیر محفوظ ماحول کے خلاف آواز اٹھائی، یہ مظاہرہ تاریخ میں خواتین محنت کشوں کی جدوجہد میں سنگ میل ثابت ہوا اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں محنت کش خواتین کے حقوق کیلئے قانون سازی کی سمت میں قدم اٹھائے گئے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ خواتین محنت کشوں کو آج بھی صنفی امتیاز کا سامنا ہے، ایک طرف جہاں مرد محنت کشوں کیلئے کام کی شرائط میں بہتری کی کوششیں کی گئی ہیں، وہیں دوسری طرف خواتین کو ان کے حقوق کیلئے سرِدست جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے، خواتین محنت کشوں کیلئے کام کے دوران جنسی ہراسانی اور غیر مناسب سلوک جیسے مسائل بھی ایک سنگین مسئلہ ہیں۔

خواتین محنت کشوں کیلئے ایک اور اہم چیلنج ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ ہے، جو انہیں گھر کے کاموں اور بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ کام کی جگہ پر بھی اٹھانا پڑتا ہے، وہ جب دونوں جگہوں پر کام کرتی ہیں تو انہیں اکثر مردوں کے مقابلے میں زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی محنت کو سراہا نہیں جاتا، آج کے دور میں بھی خواتین محنت کشوں کو صنفی امتیاز کا سامنا ہے، چاہے وہ صنعتوں میں کام کر رہی ہوں، گھریلو کام کر رہی ہوں، یا کسی اور شعبے میں محنت کر رہی ہوں۔ مختلف صنفی امتیازات کے باعث ان کی ترقی کے مواقع محدود ہوتے ہیں۔

ان سب چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے خواتین نے ہمیشہ اپنی جدوجہد کو جاری رکھا ہے اور عالمی سطح پر ان کے حقوق کی حمایت کرنے والے ادارے، تنظیمیں اور تحریکیں سرگرم رہی ہیں، خواتین محنت کشوں کی جدوجہد کو تسلیم کرنا اور ان کی محنت کی اہمیت کو سراہنا ضروری ہے کیونکہ انہوں نے معاشی ترقی میں اپنا مقدور بھر حصہ ڈالا ہے اور دنیا بھر میں صنفی برابری کیلئے آواز بلند کی ہے، اس جدوجہد میں کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ خواتین محنت کشوں کو ان کے حقوق دیے جائیں، ان کی محنت کی قدر کی جائے اور انہیں ناروا سلوک سے بچایا جائے۔

پاکستان کے تناظر میں بات کی جائے تو وطنِ عزیز میں خواتین محنت کشوں کی جدوجہد کی تاریخ کی ایک طویل اور پیچیدہ داستان ہے، جس میں صنفی امتیاز، کم اُجرت، طویل اوقاتِ کار اور سماجی روایات کا سامنا کرنے کے باوجود خواتین نے اپنے حقوق کیلئے مسلسل جدوجہد کی ہے، پاکستان میں خواتین محنت کشوں کی جدوجہد کا آغاز 1947ء کے بعد ہوا جب ملک نے آزادی حاصل کی اور صنعتی ترقی کے نئے دور میں قدم رکھا، ابتدائی طور پر خواتین کو زیادہ تر گھریلو صنعتوں، ٹیکسٹائل ملز اور دیگر کم اُجرت والے شعبوں میں کام کرنے کی اجازت تھی لیکن ان کے کام کے حالات اور ان کے حقوق کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔

پاکستان میں خواتین محنت کشوں کی تاریخ کا ایک اہم مرحلہ 1970ء کی دہائی میں آیا جب صنعتی علاقوں میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا، خصوصاً لاہور، کراچی، فیصل آباد اور پشاور جیسے شہروں میں خواتین کو فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام ملنے لگا، ان خواتین کو عام طور پر مردوں کے مقابلے میں کم اُجرت ملتی تھی اور انہیں کام کے دوران غیر محفوظ حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

اس دوران خواتین محنت کشوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیموں اور کارکنوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا، پاکستان میں خواتین محنت کشوں کی جدوجہد کا ایک اور اہم سنگِ میل 1980ء کی دہائی میں آیا جب ملک میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہوئیں اور مزدور تحریکیں زور پکڑنے لگیں، اسی دور میں خواتین محنت کشوں نے بھی اپنے حقوق کیلئے فعال طور پر آواز بلند کی۔

کراچی کی ٹیکسٹائل ملز میں کام کرنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد نے کم اُجرت، غیر محفوظ کام کے حالات اور کام کے اوقات میں کمی کیلئے مظاہرے کئے، ان مظاہروں میں خواتین نے مطالبہ کیا کہ انہیں وہی اُجرت ملے جو مرد محنت کشوں کو دی جاتی ہے اور ان کے کام کے حالات بہتر کیے جائیں۔

1990ء کی دہائی میں خواتین محنت کشوں کی جدوجہد میں مزید شدت آئی اور انہوں نے اپنے حقوق کیلئے مختلف محاذوں پر کام کرنا شروع کیا، خاص طور پر فیصل آباد اور لاہور میں ٹیکسٹائل کی صنعت میں کام کرنے والی خواتین نے اپنے حقوق کیلئے احتجاج اور مظاہرے کئے۔ ان خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں مردوں کے مقابلے میں کم اُجرت ملتی ہے اور ان کی محنت کو اہمیت نہیں دی جاتی، اس دوران خواتین نے نہ صرف اُجرت میں اضافے کیلئے جدوجہد کی بلکہ کام کے محفوظ حالات کیلئے بھی اپنی آواز بلند کی۔

پاکستان میں خواتین محنت کشوں کی جدوجہد میں 2000 ء کی دہائی کے آخر میں مزید کامیابیاں حاصل ہوئیں جب حکومت نے لیبر قوانین میں اصلاحات کیں۔

2006ء میں پاکستان میں ’’مزدور خواتین کے حقوق کے تحفظ‘‘ کے حوالے سے ایک اہم قانون منظور کیا گیا جس نے خواتین محنت کشوں کو ان کے حقوق کے حوالے سے تحفظ فراہم کیا، تاہم عملی سطح پر یہ قوانین اب بھی مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکے اور خواتین محنت کشوں کو صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں خواتین محنت کشوں کی جدوجہد کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ انہیں کام کے دوران جنسی ہراسانی، غیر محفوظ کام کے حالات اور طویل اوقاتِ کار کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خواتین کی محنت کو اکثر سراہا نہیں جاتا اور انہیں مردوں کے برابر ترقی کے مواقع بھی نہیں ملتے، اس کے باوجود خواتین نے اپنی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔

آج کے دور میں خواتین محنت کشوں کی جدوجہد کا ایک نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے کیونکہ خواتین اب سماجی اور ثقافتی پابندیوں کے خلاف بھی آواز بلند کرنے لگی ہیں، ان خواتین کی جدوجہد نے دنیا بھر میں عورتوں کے حقوق کیلئے ایک نیا باب لکھا ہے اور ان کی محنت نے ثابت کیا ہے کہ خواتین بھی محنت کشوں کے طور پر اہم اور غیر معمولی کردار ادا کر سکتی ہیں۔

مزدوروں کے حقوق کیلئے اقدامات:
پاکستان میں یوم مئی صرف ایک رسم نہیں بلکہ نظام میں تبدیلی کا مطالبہ ہے، حکومت، سماجی اداروں اور عوام کی مشترکہ کوششوں سے ہی مزدوروں کو انصاف، عزت اور بنیادی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں، محنت کش ہی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ان کی فلاح ہی پائیدار ترقی کی ضامن ہے، مزدوروں کے حقوق کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے:

قوانین کا مؤثر نفاذ: پاکستان میں مزدوروں کے تحفظ کیلئے فیکٹریز ایکٹ 1934ء اور مینجمنٹ اینڈ سروسز ایکٹ 2020ء جیسے قوانین موجود ہیں لیکن ان کا نفاذ کمزور ہے، لیبر کورٹس کو فعال بنانے اور انسپکٹرز کی تربیت سے مزدوروں کے استحصال کو روکا جا سکتا ہے۔

غیر رسمی شعبے کو شامل کرنا: 75 فیصد سے زائد مزدور غیر رسمی شعبے (جیسے کھیت مزدور، گھریلو ملازمین) سے وابستہ ہیں، انہیں سماجی تحفظ، کم از کم اُجرت اور صحت کے بیمہ جیسی سہولیات تک رسائی دلانے کیلئے خصوصی پالیسیاں بنائی جائیں۔

خواتین اور بچوں کا تحفظ: خواتین مزدوروں کو برابر اُجرت اور ہراسانی کے خلاف قوانین کو سخت کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح بچہ مزدوری کے خلاف موجودہ قوانین (ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991ء) کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے۔

مزدور یونینوں کو مضبوط بنانا: یونینوں کو سیاسی دباؤ سے آزاد کر کے انہیں مزدوروں کی آواز بننے دیا جائے، اس طرح مزدور اپنے مطالبات مؤثر طریقے سے پیش کر سکیں گے۔

عوامی شعور اور تعلیم: مزدوروں کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہ کرنے کیلئے مہمات چلائی جائیں، ٹیکنالوجی کے ذریعے شکایات جمع کرنے کے نظام (جیسے ہیلپ لائنز یا موبائل ایپس) بھی مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔

مصنفہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی ٹریڈ یونین کی سیکرٹری وومن افیئرز اور انٹرنیشنل یونین فار فوڈ ورکرز کی رکن ہیں۔