اپوزیشن اتحاد کا اصل امتحان سینیٹ میں قانون سازی پر ہو گا

Last Updated On 05 August,2018 01:07 pm

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) دھاندلی کی بنیاد پر اپوزیشن جماعتوں کا بننے والا اتحاد ایشوز کے حوالے سے کس حد تک سنجیدہ ہے اور اس کا اپنا مستقبل کیا ہو گا اس کا انحصار آنے والے چند روز پر ہے، جس میں عام جماعتیں چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کے مستقبل پر کوئی فیصلہ کریں گی۔

چیئر مین سینیٹ کے انتخابات کو گہرائی سے دیکھا جائے تو اس وقت کی حکومت کے خلاف بنیادی کردار پیپلز پارٹی نے ادا کرتے ہوئے اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن کے امیدوار راجہ ظفر الحق کے مقابلہ میں بلوچستان سے آنے والے صادق سنجرانی کو امیدوار بنایا عمران خان نے اسکی تائید کی۔ لہٰذا اب بھی صادق سنجرانی کے مستقبل کیلئے پیپلز پارٹی کا کردار نہایت اہم ہو گا۔ کیا پیپلز پارٹی اپنے ہی ہاتھوں بنائے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے گی؟ 

چیئر مین سینیٹ کے مستقبل کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی طرف سے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کے اثرات اپوزیشن کے اتحاد پر ہوں گے اور اگر پیپلز پارٹی نے اب کی بار اپنے تمام مفادات اپوزیشن اتحاد سے واپس کر لئے تو پھر ملک کے اندر قانون سازی اور سب سے بڑھ کر صدارتی انتخاب کے سوال پر اپوزیشن کی پوزیشن انتہائی مضبوط ہو جائے گی۔ کیا یہ نئی ڈویلپمنٹ ہونے جا رہی ہے؟

اپوزیشن جماعتیں انتخابات ہارنے کے بعد ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو رہی ہیں۔ ابھی سے الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔ مگر ان کے لیے سب سے بڑی پریشانی ملک میں انتخابات کے بعد اکثریتی جماعت سے پاکستان کے دوست ممالک کے رابطوں تہنیتی پیغامات ہیں۔ مطلب بڑا واضح اور سادہ ہے کہ عالمی دنیا ان انتخابات کو اور نئے آنے والے مینڈیٹ کو خوش آمدید کہہ رہی ہے۔

سب سے اہم بات برطانیہ، سعودی عرب، ایران اور چین کے سفیروں کی عمران خان سے ملاقاتیں ہیں۔ عالمی دنیا اپنا ذہن بنا چکی ہے کہ اب معاملہ عمران خان کی لیڈر شپ سے کرنا پڑے گا۔ انتخابات سے پہلے عالمی ذرائع ابلاغ الیکشن کے عمل اور پاکستان کے طاقتور اداروں کے کردار پر لکھ رہے تھے مگر نتائج آنے کے بعد ان کی گفتگو اور لب و لہجہ نئے حکمران سے چیلنجز سے نمٹنے اور حکمت عملی کے حوالے سے ہے۔ یہ سارا منظر نامہ اپوزیشن جماعتوں کیلئے کافی خوفناک ہے۔ سب سے بڑھ کر تجزیہ نگاروں کی نظر بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی سیاست پر ہے۔ آیا کہ اصلی اپوزیشن ان دونوں میں سے کون سی جماعت ہو گی یا دونوں ہی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار نبھائیں گی اور یوں سسٹم آگے بڑھتا رہے گا؟

اپوزیشن اتحاد کی کامیابی کا اصل امتحان اب سینیٹ میں محاذ آرائی اور قانون سازی پر ہو گا۔ ظاہر ہے موجودہ مینڈیٹ میں پیپلز پارٹی کے ہاتھ ایک بڑے صوبے کی حکومت بھی آئی ہے اور وفاق میں کافی حد تک اپوزیشن کا رول بھی۔ ن لیگ کے حصے میں صرف اپوزیشن آئیگی۔ مگر یہ اپوزیشن مضبوط اور موثر تب ہو گی جب حکومت کی جانب سے قانون سازی کیلئے کی جانیوالی کوششوں کو سینیٹ کی مدد سے روکا جائے گا اور سب سے بڑھ کر چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کا مستقبل اہم ہو گا۔ کیا پیپلز پارٹی اپنے ہی حمایت یافتہ چیئر مین صادق سنجرانی کو ہٹانے کیلئے اپنا وزن اپوزیشن اتحاد میں ڈالے گی؟ یہ سوال اپوزیشن کی محاذ آرائی اور دم خم کیلئے انتہائی اہم ہے اور پیپلز پارٹی کی ذمہ داری کیلئے ایک انتہائی اہم ’’ٹیسٹ کیس‘‘ہے ۔

اگر سینیٹ میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور حکومت قانون سازی بھی معمولی مارجن سے مکمل کرتی رہی تو پھر تاریخ کی کمزور اپوزیشن کو ہم دیکھیں گے اور سب سے بڑھ کر پیپلز پارٹی دوسری بار ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا طعنہ سنے گی۔ اپوزیشن اتحاد کا بڑا مسئلہ اس کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کی ذات کا بھی ہے۔ شہباز شریف کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ محاذ آرائی سے گریز کرتے ہیں اور درپردہ طاقتوں، حلقوں سے روابط استوار رکھتے ہیں۔ یوں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں خود اپوزیشن اتحاد کیلئے دردِ سر بن سکتی ہیں۔

اس وقت حکومت اور اپوزیشن کیلئے پیپلز پارٹی بیک وقت خطرناک حریف اور بے اعتبار حلیف کی طرح ہے جو صرف اپنے مفادات کے گرد اپنی سیاست کرتی ہے۔ جتنا مینڈیٹ پیپلز پارٹی کے پاس موجود ہے اور جتنا اس سے چھینا جا چکا ہے اگر اس پر اسٹیبلشمنٹ نے اکتفا کر لیا تو پھر اپوزیشن اتحاد کا اﷲ ہی حافظ ہے اور اگر اسکے برعکس صورتحال در پیش آئی تو پھر سینیٹ میں تبدیلی ناگزیر ہو گی اور آئندہ صدارتی الیکشن بھی دلچسپ ہو جائیگا اور دوسری طرف 2023 تک سندھ میں بھی وہی ہو گا جس کا تجربہ 2018 میں پنجاب میں کیا گیا ہے۔