لاہور: (خاور گھمن ) آج کل جس تواتر کیساتھ پاکستان تحریک انصاف کے مختلف اراکین کا نام پنجاب اور خیبر پختونخوا کے متوقع وزرائے ا علی کے لیے سامنے آ رہے ہیں ایسا لگتا ہے آخر میں عمران خان ہی باقی رہ جائیں گے وہ بھی اس لیے کہ وہ خو د وزیر اعظم کے امیدوار ہیں۔ رہی سہی کسر وفاقی کابینہ اور گورنرز کے متوقع امیدواروں نے نکال دی، یقیناً اگر خواہشات گھوڑے ہوتیں تو الیکشن سے لیکر آج تک عمران خان کے پاس ہر محاذ پر لڑائی لڑنے کے لیے گھڑ سواروں کی ایک فوج ظفر موج تیار ہو چکی ہوتی۔
صوبائی اور قومی اسمبلی کا ہر دوسرا منتخب رکن میڈیا میں اپنا نام مختلف عہدوں کے لیے پوری شد ومد سے چلوا رہا ہے۔ فواد چوہدری ہوں ، علیم خان ،شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، عاطف خان ، شاہ فرمان ہوں یا پھر اسد قیصر، ہر کوئی میڈیا میں اپنے لیے بھرپورلابنگ کر رہا ہے، یہی نہیں وزارت اعلیٰ کے خواہشمند پارٹی کے اندر بھی اپنے اراکین کو یہ یقین دہانی کر ا رہے ہیں کہ ان کی عمران خان سے بات ہو چکی ہے اگر آپ سے رائے لی جائے کہ آپ کسے اپنے صوبے کے وزیر اعلی کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کا نام لیا جائے۔
معتبر ذرائع کے مطابق جب یہ ساری کہانیاں عمران خان تک پہنچیں تو انہوں نے کم از کم دو ایسے مضبوط امیدواروں کو بلا کر ان کی طبیعت صاف کی جو اس طرح کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ذرائع کے مطابق ایک اور سینئرپارٹی رہنما کو بھی اسی طرح کی صورتحال کاسامنا کرتے ہوئے ہزیمت اٹھانا پڑی، اب آتے ہیں بنی گالہ کی جانب کہ وہاں در حقیقت ہوکیا رہا ہے؟۔ عمران خان اپنی زندگی کے سب سے اہم موڑ پر سوچ کیا رہے ہیں؟ اور فیصلہ سازی کے اس مرحلے پر کون کون سے عوامل کار فرما ہیں؟۔ اس حوالے سے عمران خان کے دو ا نتہائی قریبی ساتھیوں سے بات ہوئی۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر محسن خان نے عمران خان کے ساتھ کم وبیش بیس سال تک کرکٹ کھیلی اور ان کی صلاحیتوں اور سوچنے کے انداز سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بحیثیت کپتان عمران خان سب کی سنتا، فیصلے کے لیے وقت لیتا لیکن آخری فیصلہ اپنی مرضی سے کرتا تھا۔ محسن خان کے مطابق عمران خان نے کبھی بھی ٹیم سلیکشن پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا اور اب کی بار بھی وہ ایسا ہی کرے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کرکٹ ایک کھیل ہے اور سیاست بالکل ہی مختلف میدان، تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیاست سے زیادہ بے رحم کھیل کوئی اور ہو نہیں سکتا۔
عمران خان کے ایک اور دیرینہ ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عمران خان اس وقت اپنے کپتان والے موڈ میں جا چکے ہیں اور جس طرح انہوں نے کرکٹ میں ہمیشہ میرٹ اور بہادری سے فیصلے کیے اسی طرح کے فیصلے اب بھی کریں گے۔ کپتان کے ساتھی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بہت سارے لوگ جو آج کل بڑھ چڑھ کر مختلف عہدوں کے لیے اپنے نام پروجیکٹ کروا رہے ہیں سب کے سب پیچھے رہ جائیں گے۔ انہوں نے ماجد خان کے ٹیم سے ڈراپ ہونے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ماجد خان ٹیم کا اہم رکن اور عمران خان کا کزن تھا لیکن وقت آنے پر عمران خان نے صرف اپنے دماغ کی سنی۔ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن کی بات ہے کپتان نے اپنے بہنوئی حفیظ اللہ نیازی کی بھی نہیں سنی اور وہ آج کل تحریک انصاف کے سب سے بڑے ناقد بن چکے ہیں۔
آخری اور سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ عمران خان اپنے غیر لچکدار موقف اور حالیہ خطاب کے ذریعے پارٹی اراکین اور ملک کے عوام کی ان سے وابستہ توقعات کئی گنا بڑھا چکے ہیں اور اس موڑ پر وہ ٹیم سلیکشن میں کسی کوتاہی کے متحمل ہر گز نہیں ہو سکتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان سیاسی آلائشوں کے ساتھ وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں یاپھر واقعی ایک نئی ٹیم کے ساتھ اپنی حکومتی اننگز کا آغاز کریں گے۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے اگر عمران خان نے اس معاملے میں غلطی کی تو جس میڈیا نے آج تک پاکستان تحریک انصاف کو سپورٹ کیا وہی میڈیا بے رحم تنقید کا نشانہ بنائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دال جوتیوں میں بٹتی ہے یا پھر فیصلے میرٹ پر ہوتے ہیں۔