نمونیا….. بچوں کو نگلنے والا مرض

Published On 12 November,2024 02:02 pm

لاہور: (ڈاکٹر عاشر حنیف)12 نومبر کو دنیا بھر میں نمونیا سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، یہ دن منانے کا مقصد اس بیماری سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر سے متعلق لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔

نمونیا پھیپھڑوں میں ہونے والے انفیکشن کو کہتے ہیں، یہ مرض لاحق ہونے کی صورت میں جسم میں آکسیجن کی کمی ہونے لگتی ہے، جس کے نتیجے میں جسمانی اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور بالآخر انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے، ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں شیر خوار بچوں کی اموات کی بڑی وجہ نمونیا ہے، اس کی ابتدائی علامات نزلہ اور زکام ہوتی ہیں تاہم اس کی درست تشخیص کیلئے ایکسرے کیا جانا ضروری ہے۔

عالمی ادارہ صحت اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے اشتراک سے عالمی ادارہ صحت برائے اطفال کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ نمونیا ہے، ان ممالک میں انگولا، ایتھوپیا، نائجیریا اور تنزانیہ شامل ہیں، اسی طرح ایشیا میں بھی یہ شیر خوار بچوں کی ہلاکت کا سبب بننے والی بیماری ہے، ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر سال کم و بیش 70 ہزار سے زائد بچے نمونیا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں دنیا بھر میں 4 لاکھ 37 ہزار بچوں کی موت نمونیا کی وجہ سے ہوئی، سب سے زیادہ نمونیا پائے جانے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، رپورٹ میں 2018ء کے اعدادو شمار کے حوالے سے نمونیا سے متاثرہ ممالک کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے، جس میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے جبکہ بھارت دوسرے اور نائیجیریا پہلے نمبر پر ہے۔

عالمی ادارہ صحت برائے اطفال کی رپورٹ کے مطابق ہر 39 سیکنڈ میں ایک بچہ نمونیا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے جبکہ روزانہ کم از کم 2200 بچے نمونیا کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں، رپورٹ کے مطابق زیادہ تر اموات 2 سال سے کم عمر بچوں میں دیکھنے میں آئیں جبکہ سالانہ ایک لاکھ 53 ہزار بچے زندگی کے پہلے مہینے میں ہی نمونیا کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق بچوں کی طرح بزرگ افراد بھی نمونیا کے باعث موت کے منہ میں جا سکتے ہیں، ایسے افراد جو پہلے ہی کسی مرض میں مبتلا ہوں جیسے دمہ، ذیابیطس اور امراض قلب، انہیں اگر نمونیا ہوجائے تو یہ ان کیلئے شدید خطرے کی بات ہے، جن افراد کی قوت مدافعت کمزور ہو وہ بھی نمونیا کے باعث موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔

علامات: بلغم والی کھانسی، تیز بخار، سانس لینے میں دشواری، سینے میں درد، بہت زیادہ پسینے آنا، معدہ یا پیٹ کا درد، پھیپھڑوں میں سے چٹخنے کی سی آوازیں آنا، بھوک ختم ہونا کھانسی یا بلغم کو نگلنے کی وجہ سے قے ہونا، حد درجہ تھکاوٹ، ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر پریشانی محسوس ہونا۔

علاج: نمونیا میں ماہرین صحت اینٹی بائیوٹکس کا کورس تجویز کرتے ہیں جسے پورا کرنا ازحد ضروری ہے، اگر کورس کے دوران مریض کی حالت بہتر ہوجائے تب بھی کورس کو ادھورا نہ چھوڑا جائے، نمونیا ایک ایسا انفیکشن ہے جو ایک یا دونوں پھیپھڑوں میں ہوا کی نالیوں میں سوجن پیدا کرتا ہے۔

ڈاکٹر کیا کر سکتا ہے؟: اگر ڈاکٹر کو نمونیا کا شبہ ہو تو ممکن ہے کہ آپ کے بچے کے سینے کا ایکسرے کرے، ڈاکٹر آپ کے بچے کے خون کے کچھ ٹیسٹ بھی کروانے کی ہدایت دے سکتا ہے، وائرس کے باعث ہونے والے نمونیا کا علاج اینٹی بائیوٹک سے کرنے کی ضرورت نہیں لیکن وائرل اور بیکٹیریل کی الگ الگ وجوہات بتانا مشکل ہو سکتی ہیں، اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کرنے سے پہلے آپ کے بچے کا ڈاکٹر بہت سے عوامل کو مدنظر رکھے گا، اس مرض سے متاثرہ شدہ پھیپھڑے ایکسرے میں سفید آتے ہیں یہ سفید سایہ پھیپھڑوں کی ہوا کی نالیوں میں مادہ بننے کی وجہ سے نظر آتا ہے۔

کھانسی: اس بات کا بھی امکان ہے کہ آپ کے بچے کی کھانسی صحیح ہونے سے پہلے شدید ترین ہو جائے، جیسے ہی نمونیا تحلیل ہوتا ہے آپ کا بچہ بلغم سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے کھانسے گا، ممکن ہے کہ اس کی کھانسی کچھ ہفتوں تک جاری رہے۔

احتیاط: اکثر لوگ کھانسی کی عام شکایت دور کرنے کیلئے چند سادہ اور گھریلو نسخوں کا سہارا لیتے ہیں جو کارآمد بھی ثابت ہوتے ہیں، لیکن بعض صورتوں میں یہ نظامِ تنفس میں خرابیوں کا سبب بن سکتے ہیں، اس کی وجہ سے حلق کی سوزش، سانس کی نالی میں انفیکشن یا پھیپھڑوں کے مسائل جنم لیتے ہیں اور موثر علاج نہ کیا جائے تو یہ مسئلہ خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔

ماہرینِ صحت کے مطابق شدید کھانسی کی شکایت تین ہفتے سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے، عام طور پر بازار میں دستیاب ادویات کے استعمال سے افاقہ ہو جاتا ہے، لیکن بعض صورتوں میں کھانسی سے نجات حاصل کرنے میں زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے، کھانسی کا تعلق نظام تنفس کی پیچیدگیوں سے ہوتا ہے، یہ خشک اور شدید قسم کی ہو یا اس کی وجہ سے حلق کی سوزش کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہو، متاثرہ فرد کو فوراً طبی علاج کی طرف توجہ دینی چاہئے۔

ڈاکٹر عاشر حنیف لاہور کے مقامی ہسپتال سے وابستہ ہیں۔