لاہور: (عدیل وڑائچ) وزیراعظم شہباز شریف حالیہ دنوں دو اہم عالمی کانفرنسوں میں شریک ہوئے، انہوں نے گزشتہ دنوں سعودی عرب میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی۔
اس موقع پر اپنے خطاب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ پر جارحیت کی تمام حدیں عبور کر چکا ہے، وزیر اعظم نے پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کیا کہ وہ ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کی حمایت جاری رکھے گا جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو، یہی اس مقدس سرزمین پر پائیدار امن اور انصاف کی ضمانت ہے۔
وزیر اعظم نے مطالبہ کیا کہ غزہ سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت پر نظر ثانی کی جائے، وزیر اعظم نے مسلم اُمہ سے بھی کہا کہ ہمیں مذمت سے آگے بڑھ کر کانفرنس میں اٹھنے والی آوازوں کو عملی شکل دینا ہوگی۔
وزیر اعظم اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں کے اہم ایشو پر آزربائیجان میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس میں شرکت کیلئے باکو چلے گئے جہاں کانفرنس کی سائیڈ لائنز پر ان کی اہم عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی جاری ہیں، اس موقع پر پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کے درمیان دو طرفہ تعاون میں اضافے پر بھی گفتگو ہوئی۔
وزیر اعظم نے برطانوی ہم منصب سر کیئر سٹارمر سے بھی ملاقات کی اور پاک برطانیہ تعاون میں اضافے پر تبادلہ خیال کیا گیا، ان ملاقاتوں سے جہاں پاکستان کے مختلف ممالک سے تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا وہیں موسمیاتی تبدیلیوں سمیت کئی اہم امور پر پاکستان کے مؤقف کو عالمی سطح پر حمایت بھی حاصل ہوگی۔
پانچ نومبر کے امریکی انتخابات کے نتیجہ میں بڑی عالمی طاقت کے ایوانِ صدر میں آنے والی تبدیلی جہاں عالمی سطح پر زیر بحث ہے وہیں پاکستان میں بھی یہ بحث زوروں پر ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے دو طرفہ تعلقات پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں، اپوزیشن کی صفوں سے یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے سے ان کے رہنماؤں کی رہائی کیلئے دباؤ بڑھے گا۔
دوسری طرف حکومت اس تبدیلی سے کسی حد تک پریشان بھی ہے اور ٹرمپ کو جیت کی مبارکبادوں کے ساتھ اس انتظار میں بھی ہے کہ جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان کے حوالے سے کیا پالیسی ہوگی کیونکہ اسی تناظر میں مسلم لیگ (ن) اور اتحادی حکومت کی جانب سے آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا۔
تاہم (ن) لیگ کی قیادت کی جانب سے ٹرمپ کی جیت کے بعد فوری ردعمل یہی دیا جا رہا ہے کہ ملکوں کے تعلقات میں شخصیات خاص اہمیت نہیں رکھتیں۔ یہ تعلقات دو طرفہ مفادات کے تناظر میں پنپتے ہیں، یہ رہنما اس امید کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ امریکہ میں سیاسی تبدیلی کے بعد بھی پاک امریکہ تعلقات اپنی اسی ڈگر پر رواں دواں رہیں گے۔
دوسری طرف آئی ایم ایف کے وفد کی اسلام آباد آمد کے بعد معاشی حوالے سے نئی اور اہم پیش رفت کی توقع کی جا رہی ہے، جس کے نتیجہ میں عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ مزید بڑھتا دکھائی دے رہا ہے، ابتدائی مذاکرات میں آئی ایم ایف کی جانب سے ریونیو شارٹ فال، نیشنل فسکل پیکٹ، بڑھتے ہوئے گردشی قرضہ اور توانائی شعبے میں ریکوری میں ناکامی سمیت مالیاتی معاہدہ کی شرائط پوری نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا جس کے بعد پاکستانی حکام اور عالمی ادارے کے مابین نئے ٹیکسوں اور منی بجٹ پیش کئے جانے پر بات چیت کی گئی ہے، منی بجٹ کی صورت میں عوام پر 500ارب کا اضافی بوجھ ڈالا جاسکتا ہے۔
آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ پاکستان بیرونی سرمایہ کاروں کو پروفیشنل ٹریٹ کرے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے تمام ممالک کے ساتھ یکساں میرٹ قائم کیا جائے، سپیشل اکنامک زونز میں ٹیکس استثنا ختم کرنے اور جی ٹو جی کی بجائے مسابقتی عمل کو اپنانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، یہ اہداف آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ مذاکرات کا حصہ ہیں، بتایا گیا ہے کہ بات چیت کے دوران آئی ایم ایف کی جانب سے زرعی ٹیکس کے نفاذ کی شرط پوری نہ ہونے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا، 30 اکتوبر تک پانچ سے 45 فیصد تک زرعی ٹیکس عائد کیا جانا تھا جس میں صوبائی حکومتیں ناکام رہیں۔
دوسری طرف وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے بیل آوٹ پیکیج پر عملدرآمد جاری رکھے جانے کیلئے شرائط پر مکمل عمل کئے جانے کی یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں، اسی دوران وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے مہنگائی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے پریشان حال عوام کو موسم سرما کے تین ماہ کے دوران گزشتہ سال کے مقابلے میں اضافی بجلی کے استعمال پر نرخوں میں نمایاں کمی کی خوشخبری سنائی گئی ہے، پیکیج کے تحت اضافی بجلی کے استعمال پر صارفین کیلئے رواں سال دسمبر سے آئندہ سال فروری تک فلیٹ ریٹ 26 روپے 7 پیسے فی یونٹ ہوگا۔
26 ویں آئینی ترمیم کے بعد عدالتی حوالے سے رواں ہفتے ایک اور بڑی پیش رفت ہونے جا رہی ہے، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا آئینی بنچ آج (14 نومبر 2024) سے مقدمات کی سماعت کا آغاز کرے گا، بنچ کے سامنے جو کیسز سماعت کیلئے مقرر کئے گئے ہیں ان میں پاکستانیوں کے بیرون ملک بینک اکاؤنٹس پر از خود نوٹس، ملک کا لوٹا گیا پیسہ دیگر ممالک سے واپس لانے کا کیس، دفاتر میں خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق مقدمات، گلوکار علی ظفر اور گلوکارہ میشا شفیع ہراسگی کیس، کنونشن سنٹر اسلام آباد کے نجی استعمال سے متعلق از خود نوٹس، گلگت بلتستان کی عدالتوں کے پاکستان میں دائرہ اختیار سے متعلق مقدمات اور توانائی منصوبوں سے متعلق خواجہ آصف کی مختلف درخواستوں پر سماعت کی جائے گی۔
26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سے قانونی اور سیاسی حلقوں میں اس پر بحث جاری ہے، ایک حلقے کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کے بعد عدالتوں پر حکومتی اثر بڑھ جائے گا اور جوڈیشل کمیشن میں حکومتی ممبران کی اکثریت کے باعث حکومت نہ صرف اپنی مرضی کے بنچز بنوا سکے گی بلکہ ججز کی تقرری بھی حکومت کی منشا کے مطابق ہوگی۔
دوسری جانب سے مؤقف پیش کیا جا رہا ہے کہ ماضی میں اعلیٰ عدلیہ سیاسی نوعیت کے کیسز ہی میں الجھ کر رہ گئی تھی جس کے باعث عام سائلین بری طرح متاثر ہوئے اور سپریم کورٹ میں زیر التوا کیسز کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی گئی جن کا بیک لاگ اس وقت 60 ہزار کے قریب ہے۔
آئینی بنچز کی تشکیل سے عدلیہ پر سیاسی اور آئینی نوعیت کے کیسز کا دباؤ کم کیا گیا ہے جس سے عام سائلین کے زیر التوا کیسز نمٹانے کے حوالے سے نمایاں بہتری آئے گی، اس حوالے سے آئینی کیسز کمیٹی نے اپنا میکنزم بھی تشکیل دے دیا ہے جس کے تحت پرانے کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جائے گا جس سے سالوں سے فائلوں میں دبے اہم ایشوز پر فیصلوں کی امید بھی جاگ اٹھی ہے۔