لاہور: (ویب ڈیسک) کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں دو لاکھ سے زائد افراد موت کی وادی میں پہنچ چکے ہیں، جبکہ اس دوران طبی ماہرین مریضوں کو بچانے اور سائنسدان ویکسین بنانے میں مصروف ہیں، اسی دوران ماہرین کی طرف سے بتایا جا رہا ہے کہ کورونا کے مریضوں میں سب سے پہلے قوت مدافعت متاثر ہوتی ہے۔ قوت مدافعت کے حوالے سے ایک تحقیق سامنے آئی ہے۔ امریکی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ روزہ رکھنے اور کم کھانے یا کم کیلوریز کے باعث جسم کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ مدافعتی نظام کی مضبوطی سے انسانی جسم کو مختلف بیماریوں سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق عام طور پر کورونا وائرس سمیت دیگر مختلف امراض اس وقت جان لیوا ثابت ہوتے ہیں جب انسانی مدافعتی نظام اپنے ہی اعضا پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب مدافعتی نظام جسمانی اعضا کے خلیوں کا جینیاتی فنگر پرنٹ نہیں پڑھ پاتا اور اسے دشمن سمجھ کر خلیوں کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ مرض تب زیادہ شدت اختیار کر کے جان لیوا تک ثابت ہو جاتا ہے جب مدافعتی نظام کسی ایک عضو اور اعضا کے گروہ کو ہدف بنا لیتا ہے۔
امریکی ماہرین کی تحقیق کے مطابق خاص وقت کے لیے کم کھانا مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔
تازہ تحقیق یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلیفورنیا کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ پروفیسر والٹر لونگو کی قیادت میں کی گئی۔ والٹر لونگو کو ٹائم میگزین نے صحت کے شعبے کی 50 نمایاں شخصیات کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔
کووڈ 19 کی وبا پھیلنے کے بعد پروفسیر لونگو اپنی تحقیق میں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ روزہ رکھنے سے مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے اور کیا اس کے ذریعے کورونا وائرس کے خلاف مدافعت بڑھ سکتی ہے؟
ان کی تحقیق کے مطابق روزہ رکھنا یا روزے جیسی خوراک‘ (ایف ایم ڈی) استعمال کرنے سے مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے اور جسم سے متاثرہ اور غلط شناخت کرنے والے خلیے ختم ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے اور صحت مند خلیے لے لیتے ہیں۔
ابتدا میں تحقیق چوہوں پر کی گئی جس میں ظاہر ہوا کہ کم خوراک کھانے سے چوہوں میں آنتوں کی سوزش کم ہوئی۔ بعد میں یہ تجربہ انسانوں پر بھی کیا گیا۔ تجربے میں ہفتے کے تین دن خوراک کم کر دی گئی اور اس کے بعد عمومی خوراک بحال کی گئی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق روزہ رکھنے سے مماثلت رکھنے والے تجربے کے نتائج صحت کے لیے روزہ‘ رکھنے کی نسبت زیادہ کارآمد ثابت ہوئے۔ اس طریقے میں کھانا مکمل بند کر دیا جاتا ہے اور صرف پانی پیا جاتا ہے۔
پروفسیر لونگے کا کہنا ہے کہ نئی تحقیق اس بات پر مرکوز ہو گی کہ کیا روزہ رکھنے سے کورونا وائرس یا انفلوئنزا کا حملہ روکا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں انسداد کورونا ویکسین بن جانے کے بعد وہ یہ تحقیق بھی کرنا چاہتے ہیں کہ آیا کم خوراکی ویکسین کے زیادہ موثر ہونے میں مدد کر سکتی ہے۔