لاہور: ( تحریر:طارق حبیب، مہروز علی خان) پاکستان تحریک انصاف حکومت کے چوتھے وزیرخزانہ نے تیسرا بجٹ پیش کردیا ہے۔ اس بجٹ میں پاکستان کے کل سالانہ اخراجات کا تخمینہ 7523 ارب روپے لگایا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں ملک کی کل آمدنی 7909 ارب روپے ہے، یوں ماضی کی طرح موجودہ بجٹ بھی خسارے کا بجٹ ہی ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو مجموعی طور پر 3412 ارب روپے منتقل کیے جانے کا تخمینہ ہے۔ اس قابل تقسیم محصولات میں ہے پنجاب کو 1691 ارب روپے، سندھ کو 848 ارب روپے، خیبر پختونخوا کو 559 ارب روپے اور بلوچستان کو 313 ارب روپے دیے جانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یوں صوبوں کو پیسوں کی ترسیل کے بعد وفاقی حکومت کے پاس 4497 ارب روپے رہ جاتے ہیں جن سے ملک کو چلایا جائے گا۔ موجودہ مالی سال میں ہونے والے اخراجات کی جانب نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سال مجموعی طور پر 3060 ارب روپے قرضوں پر سود کی مد میں ادا کیے جائیں گے، جن میں سے اندرونی قرضوں پر سود کی مد میں 2757 ارب روپے جبکہ بیرونی قرضوں پر سود کی مد میں 302 ارب روپے ادا کیے جائیں گے۔ اسی طرح وفاقی سول حکومت کو چلانے کے اخراجات کی مد میں 479 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ کی تفصیل میں جایا جائے تو موجودہ بجٹ میں دفاعی اخراجات کیلئے 1370 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو کہ گزشتہ مالی بجٹ کے مقابلے میں تقریباً 80 ارب زیادہ ہیں۔ اسی طرح حکومت کی جانب اس دفعہ پنشن کی مد میں 480 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں سے ملٹری پنشن کیلئے 360 ارب روپے اور سول ملازمین کی پنشن کیلئے 120 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 900 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے، جو گزشتہ مالی بجٹ کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ اب اگر وفاقی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا موازنہ کیا جائے تو موجودہ مالی سال میں حکومت نے سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر و مرمت کیلئے نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کو 113 ارب روپے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ گزشتہ مالی بجٹ سے 5 ارب روپے کم ہے۔ اس کے علاوہ آبی وسائل کی بہتری کیلئے 103 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جو مالی سال 2021 کی نسبت 20 ارب زیادہ ہیں۔
اس کے علاوہ حکومت نے موجودہ مالی سال میں پی ایس ڈی پی کی مد میں ریلوے کیلئے 30 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نئے مالی سال میں تحریک انصاف حکومت نے احساس پروگرام کی رقم کو 210 ارب روپے سے بڑھا کے 260 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ حکومت اگر تمام تر ٹیکس اور نان ٹیکس وصولیوں کو مد نظر رکھے تو موجودہ مالی سال میں 7909 ارب روپے کی وصولی کرنے کا تخمینہ کر رہی ہے، جس میں حکومت ٹیکس وصولیوں کی مد میں 5829 ارب روپے جبکہ نان ٹیکس وصولیوں کی مد میں 2080 ارب روپے اکھٹا رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اب اگر حکومت اپنی سالانہ وصولیوں جو کہ 4497 ارب روپے ہوں گی اور اپنے اخراجات جن کا تخمینہ 7523 ارب روپے لگایا گیا ہے کا موازنہ کرے تو 3990 ارب روپے کا شارٹ فال یا فرق بنتا ہے، جس کا بندوبست حکومت قرض لے کر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس شارٹ فال کا بندوبسٹ کرنے کیلئے بیرنی سطح پر 1246 ارب روپے اکٹھے کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ جس کے تحت کثیرالجہتی اور دو طرفہ ذرائع کے ذریعے 369 ارب روپے اور کمرشل ذرائعوں کے ذریعے 877 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے۔ اسی طرح اندرونی سطح پر 2492 ارب روپے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے اکٹھے کیے جائیں گے جس میں سے نیشنل سیونگ اسکیم کے تحت 74 ارب اور بینکوں کی سیکیورٹیز کے ذریعے 2417 ارب روپے جمع کیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ حکومت آئندہ مالی سال میں 252 ارب روپے نجکاری کے ذریعے حاصل کرنے کی ارادہ کر رہی ہے۔ اسی طرح آئندہ مالی سال میں سبسڈیز کا تخمینہ 430 ارب روپے سے بڑھا کر 682 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ احساس پروگرام کیلئے مختص رقم میں 24 فیصد اضافہ کرتے ہوئے 210 ارب روپے سے بڑھا کر 260 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ آئندہ بجٹ میں مجموعی بجٹ خسارہ 6.3 فیصد رہنے کی توقع کی جا رہی ہے جبکہ مالی سال 2021 میں بجٹ خسارہ 7.1 فیصد رہا۔ یوں حکومت آئندہ مالی سال کے دوران بجٹ خسارے میں 11 فیصد کمی کا ارادہ کر رہی ہے۔ بجٹ 2021-22میں معاشی ترقی کا ہدف 4.8 فیصد رکھا گیا ہے۔ موجودہ بجٹ میں 4 سے 6 ملین گھرانوں کو نچلے طبقے سے اٹھایا جائے گا۔ اس سلسلے میں ہر شہری گھرانے کو 5 لاکھ تک بغیر سود کے قرض دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر کاشت کار گھرانے کو ہر فصل پر ڈیڑھ لاکھ روپے کا بغیر سود قرض فراہم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ٹریکٹر اور مشینری کے لیے بھی 2 لاکھ کا بلا سود قرض دیا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے ان سب گھرانوں کو اپنا گھر بنانے کیلئے 20 لاکھ روپے تک کے سستے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ ہاؤسنگ شعبے کیلئے حکومت کم اامدنی والے گھروں کو پنا گھر خریدنے یا بنانے کیلئے 3 لاکھ سبسڈی ادا کرنا جاری رکھے گی۔ اس مد میں حکومت نے 33 ارب روپے سبسڈی کی مد میں رکھے ہیں.بجٹ 2021-22 میں احساس پروگرام کیلئے 260 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔بجٹ میں پی ایس ڈی پی کیلئے 900 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو کہ گزشتہ مالی سال میں 630 ار ب روپے تھی۔ قومی اقتصادی کونسل نے 2،135 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی گئی ہے۔
زرعی شعبے میں اصلاحات کیلئے 12 ارب روپے رکھے گئے ہیں ، جن میں آبی گذرگاہوں کی مرمت اور بہتری کیلئے 3 ارب روپے جبکہ ریتوں کی کاشت کو بڑھانے کیلئے 1 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح ٹڈی دل ایمرجنسی اور فوڈ پراجیکٹ کیلئے ایک ارب روپے، جبکہ چاول، گندم کپاس گنے اور دالوں کی پیداوار میں اضافے کیلئے 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔آبی تحفظ کو بجٹ میں اہمیت دیتے ہوئے حکومت نے 91 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اس سلسلے میں تین بڑے ڈیم داسو، دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کو ترجیح دی گئی ہے۔ بھاشا ڈیم کیلئے 23 ارب روپے، مہمند ڈیم کیلئے 6 ارب روپے، جبکہ نیلم جہلم پاور پروجیکٹ کیلئے 14 ارب روپے رکھنے کی تجویز کی گئی ہے۔ ساتھ ہی داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے 2160 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کیلئے 8.5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز کی گئی ہے، جبکہ اس پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کیلئے 57 ارب روپے رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ موجودہ بجٹ میں سی پیک میں شامل پراجیکٹس کی تعمیر و تکمیل میں تیزی لائی جائے گی۔ اس حوالے سے کراچی لاہور موٹروے کی تکمیل، حویلیاں تھاکوٹ 120 کلومیٹر فیز 1 کی تکمیل اور شاہراہ قرارم کی فیز 2 کے 118 کلومیٹر کی تکمیل شامل ہے۔ رواں بجٹ میں پاکستان ریلوے کی مین لائن 1 کی بہتری اور حویلیاں کے قریب فیز 1 ڈرائی پورٹ کی تعمیر بھی شامل ہے۔
بجٹ میں بجلی کی پیداوار گنجائش کو بڑھانے اور اس کی ترسیل میں بہتری لانے کیلئے 118 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
پسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے حکومتی منصوبہ بندی
بلوچستان
جنوبی بلوچستان کے لیے 601 ارب روپے کی لاگت سے 199 منصوبوں کی تکمیل پر مشتمل پیکج بنایا گیا ہے جس میں حکومت کی جانب سے 20 ارب روپے جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کراچی ٹرانسفارمیشن پلان
کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کیلئے 739 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ حکومت کراچی ٹرانسفارمیشن منصوبے کیلئے پی ایس ڈی پی کی مد میں 98ار ب روپے رکھے ہیں۔
گلگت بلتستان کی ڈویلپمنٹ کیلئے حکومت نے 40 ارب جاری کیکرنے کا اعلان کیا ہے۔
سندھ کے 14 اضلاح میں 444 ارب روپے پر مشتمل 107 منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے ان منصوبوں کیلئے اس سال بجٹ میں 19.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
حکومت نے خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاح کی ترقی کیلئے نئے مالی سال میں 54 ارب روپے رکھے ہیں جن میں سے 30 ارب روپے دس سالہ ترقیاتی پلان کی مد میں رکھے گئے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے بلین ٹری سونامی منصوبے پر کام جاری رکھنے کیلئے 14 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
سماجی شعبوں کی ترقی کیلئے حکومت نے آئندہ بجٹ میں صحت کیلئے 30 ارب روپے جبکہ ہائیر ایجوکیشن کیلئے 44 ارب روپے رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح ماحول کی بہتری کے لیے 16 ارب روپے جبکہ sustainable development goals کے حصول کیلئے 68 ارب روپے رکھنے کا ارادہ کیا گیا ہے۔
کورونا وباء کے باعث حکومت نے کورونا ویکسینیشن عمل کو تیز کرتے ہوئے 1.1 ارب ڈالر ویکسین کی درآمد پر خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس عمل کے ذریعے جون 2022 تک 10 کروڑ افراد کو ویکسینیٹ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے۔
کامیاب پاکستان پروگرام کیلئے حکومت کی جانب سے آئندہ بجٹ میں 10 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔
ہائیر ایجوکیشن کو آئندہ بجٹ میں 66 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، جبکہ ترقیاتی کاموں کی مد میں ہائیر ایجوکیشن کو 44 روپے ادا کیے جائیں گے۔
بجٹ 2022 میں حکومت پی آئی اے کو 20 ارب جبکہ سٹیل ملز کو 16 ارب روپے فراہم کرے گی۔
رواں بجٹ خصوصی علاقوں کی ترقی و خوشحالی کو مد نظر رکھتے ہوئے آزاد کشمیر کیلئے 60 ارب روپے، گلگت بلتستان کیلئے 47 ارب روپے، سندھ کیلئیب 19 ارب کی خصوصی گرانٹ جبکہ بلوچستان کو این ایف سی حصہ کے علاوہ مزید 10 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔ اسی طرح 2022 میں ہونے والی مردم شماری اور لوکل گورنمنٹ الیکشن کیلئے وفاق 5، 5 ارب روپے فراہم کرے گی جبکہ کووڈ 19 ایمرجنسی فنڈ کیلئے 100 ارب روپے رکھے جائیں گے۔
حکومت نے آئندہ بجٹ میں مقامی طور پر بنائی جانے والی 850 سی سی تک کی کاروں پر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ دینے، ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے خاتمے اور سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کر کے 12.5 فیصد تک کرنے کا اعلان کیا ہے۔جبکہ حکومت نے الیکٹرک گاڑیوں کیلئے سیلز ٹیکس کی شرح میں 17 فیصد سے 1 فیصد تک کمی کرنے کا بھی ارادہ کیا ہے۔۔ اس کے علاوہ ٹیلی کام خدمات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح 17 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کر دی گئی ہے۔
آئندہ بجٹ میں حکومت کی جانب سے کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے ماہانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یوں مالی سال 2021 کے مقابلے میں آئندہ مالی سال کے دوران کم سے کم اجرت میں 2،500 ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو ریلیف دیتے ہوئے یکم جولائی 2021 سے وفاقی حکومت کے تمام پنشنرز اور تمام وفاقی سرکاری ملازمین کو 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اردلی الاؤنس کو 3،500 روپے اضافے کے ساتھ 14 ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 17500 روپے ماہانہ کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی گریڈ 1 سے 5 تک کے ملازمین کے انٹیگریٹڈ الاؤنس 450 روپے سے بڑھا کر 900 روپے کر نے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔