حکومت کی معاشی کارکردگی، اعدادوشمار کے آئینے میں

Published On 11 June,2021 03:47 pm

لاہور: (تحریر: طارق حبیب، مہروز علی خان) شرح سود: سٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ جولائی 2018 میں 7.5 فیصد پر تھا، جبکہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی اکتوبر 2018 میں پالیسی ریٹ کو 100 بیس پوائنٹس بڑھا کر 8.5 فیصد کر دیا، جسے اپریل 2019 تک 10.75 تک بڑھا دیا۔ مئی 2019 میں حکومت کی جانب سے رضا باقر کو سٹیٹ بینک کا گورنر مقرر کیا گیا، جنہوں نے سٹیٹ بینک کی پالیسی ریٹ میں 150 بیس پوائنٹس کا مزید اضافہ کر کے شرح سود کو 12.25 فیصد کر دیا۔ جولائی 2019 میں حکومت نے ایک مرتبہ پھر پالیسی ریٹ میں نظر ثانی کی اور پالیسی ریٹ کو 13.25 مقرر کر دیا، جس کے باعث ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر سامنے آئی۔ مرکزی بینک کی جانب سے کیے جانے والے ان اقدامات کی صورت میں ملک میں کاروباری سرگرمیوں میں جمود آیا جس کے باعث بیروز گاری میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سال 2020 میں دنیا بھر کو عالمی وباء کورونا نے جکڑ لیا جس کے سبب عالمی معیشت میں سست روی دیکھنے میں آئی۔سٹیٹ بینک نے ملک میں جاری معاشی سست روی کو ختم کرنے اور معیشت کی بحالی کیلئے مارچ 2020 سے جون 2020 کے دوران شرح سود میں 625 بیس پوائنٹس کی کمی کی اور شرح سود کو 13.25 فیصد سے کم کرکے 7 فیصد پر لے آیا۔ مالی سال 2021 کے دوران بھی اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو 7 فیصد پر ہی رکھا۔گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کے مطابق رواں مالی سال کے دوران کورونا ماحول میں 2 ہزار ارب روپے کے مالیاتی پیکیج دیئے گئے ہیں، اس کے ساتھ ٹیرف کے تحت 450 ارب روپے سستے قرضوں کی منظور ی بھی دی گئی ہے۔

افراطِ زر

تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں افراطِ زر میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا، جس کے سبب جنوری 2019 میں ملک میں مہنگائی ریکارڈ 14.6 فیصد تک جا پہنچی۔ ملک میں پیش آنے والے بحران جن میں گندم و چینی بحران سرِ فہرست ہیں نے افراطِ زر میں ریکارڈ اضافے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں افراطِ زر کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو مالی سال 2019 میں ملک میں افراطِ زر کی شرح تقریباً 7 فیصد تھی،جوکہ مالی سال 2020 میں 11 فیصد سے تجاوز کر گئی۔ مالی سال 2021 میں افراطِ زر تقریباً 9 فیصد تک رہا۔

رواں مالی سال میں اجناس کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو پچھلے تین سالوں کے درمیان ، آٹے کی فی کلو قیمت میں تقریباً 400 روپے کا اضافہ ہوا،جس کے باعث جون 2018 میں 723 روپے فی کلو میں ملنے والا آٹا جون 2021 میں 1 ہزار 128 روپے تک جا پہنچا۔اسی طرح فی درجن انڈے جن کی قیمت جون 2018 میں 88 روپے تھی، جون 2021 میں تقریباً 145 روپے تک جا پہنچے۔ساتھ ہی چینی کی قیمت جون 2018 میں 54 روپے فی کلو دستیاب تھی، جون 2021 میں 97 روپے فی کلو تک جا پہنچی۔یاد رہے کہ حکومت نے موجودہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح کو کم کر کے 6.5 فیصد تک لانے کا ارادہ کیا تھا البتہ گندم و چینی بحران اور اشیائے خوردو نوش کی طلب اور رسد میں ریکارڈ فرق کے باعث حکومت افراطِ زر کو قابو کرنے میں ناکام نظر آئی۔ اقتصادی ماہرین اسے حکومتی نااہلی قرار دے رہے ہیں جبکہ حکومت کے مطابق مہنگائی میں اضافہ ان مشکل فیصلوں کی وجہ سے ہوئے جو کہ طویل مدتی معاشی استحکام کیلئے ناگزیر تھے۔اس کے علاوہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم مختلف مافیاز کو بھی بیشتر معاشی مسائل اور بڑھتی مہنگائی کے ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔

فی کس آمدن

پاکستان تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے پہلے فی کس آمدن ریکارڈ 1652 ڈالر تھی، جس کے بعد اس میں کمی دیکھنے میں آئی اور مالی سال 2019 میں فی کس آمدن 1459 تک جا پہنچی۔ مالی سال 2009 کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان میں فی کس آمدنی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ معاشی تنزلی اور پیسے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ فی کس آمدن میں کمی کی وجہ بنی۔ مالی سال 2009 میں پاکستان کی فی کس آمدنی 1026 ڈالر تھی جس میں سالانہ بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ گزشتہ مالی سال 2020 میں معاشی بدحالی کے سبب فی کس آمدن مزید کمی کے بعد 1361 ڈالر تک آپہنچی۔ تاہم رواں مالی سال کے دوران معاشی استحکام آنے کے باعث فی کس آمدن تقریباً 200 ڈالر اضافے کے ساتھ 1543 ڈالر تک جا پہنچی ہے۔

یوں رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی فی کس آمدن میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اگر خطے میں موجود دیگر ہمسایہ ممالک سے پاکستان کی فی کس آمدن کا موازنہ کیا جائے تو سوائے افغانستان کے دیگر تمام ممالک کی فی کس آمدن پاکستان سے زیادہ ہے۔ عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2019 میں چین میں فی کس آمدن 10 ہزار 216 ڈالر تھی۔ اسی طرح سال 2018 میں ایران میں فی کس آمدن 5 ہزار 550 ڈالر تھی۔ سال 2019 میں بھارت کی فی کس آمدن 2099 ڈالر تھی، سال 2019 میں بنگلہ دیش میں فی کس آمدن 1855 ڈالر جبکہ سال 2019 میں افغانستان میں فی کس آمدن 507 ڈالر تھی۔ پاکستان میں فی کس آمدن کو مقامی کرنسی کے مطابق دیکھا جائے تو فی ڈالر 159.75روپے ہونے کے باعث ملک کی فی کس آمدنی 2 لاکھ 46 ہزار 414 روپے ہے ، جوگزشتہ مالی سال کے دوران 2 لاکھ 15 ہزار 60 روپے تھی، جب فی ڈالر 158روپے کا دستیاب تھا۔

پاکستان سٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس

پاکستان میں 26 فروری 2020 کو کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد پاکستان سٹاک ایکسچینج 100 انڈکس میں صرف ایک ماہ کے دوران 28 فیصد گراوٹ ریکارڈ کی گئی اور انڈکس 39 ہزار پوانٹس سے کم ہو کر 28 ہزار پوانٹس پر آ گرا۔ تاہم حکومت کی جانب سے بروقت کئے جانے والے معاشی اقدامات اور لاک ڈاؤن میں نرمی کے باعث ملکی معیشت میں استحکام آیا جس کے پیش نظر پاکستان سٹاک ایکسچینج نے ریکارڈ ریکوری کی اور تقریباً 20 ہزار پوانٹس کے اضافے کے ساتھ اس وقت 48 ہزار پوانٹس سے اوپر کی سطح پر موجود ہے۔ یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ پاکستان سٹاک مارکیٹ نے ایسے حالات میں مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کیا جب کورونا لاک ڈاؤن کے باعث ملکی معیشت دباؤ کا شکار تھی اور مختلف شعبے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ سال 2020 میں عالمی مالیاتی اداروں کی کارکردگی پر تحقیق کرنے والی امریکی ادارے "مارکیٹ کرنٹس ویلتھ نیٹ" کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2020 میں پاکستان سٹاک ایکسچینج کو ایشیا میں بہترین اور دنیا میں چوتھے نمبر پر بہتر کارکردگی دکھانے والی مارکیٹ کا اعزاز حاصل ہوا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں اس وقت 546 سے زائد کمپنیز لسٹڈ ہیں جو کہ 35 شعبوں میں تقسیم کی گئی ہیں۔دنیا کے بیشتر معاشی ماہرین کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال کا اندازہ اس ملک کی سٹاک مارکیٹ میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے کرتے ہیں۔پاکستان سٹاک مارکیٹ میں سرمائے کی مالیت کا تخمینہ تقریباً 55 ارب ڈالر ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ملکی کی مجموعی قومی پیداوار اس وقت 280 ارب ڈالر سے زائد ہے ، جو تقریباً 25 فیصد بنتا ہے۔ اس کے برعکس دیگر ممالک کی سٹاک ماکیٹ میں لگنے والے سرمائے کی رقم اس ملک کی جی ڈی پی کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستا ن میں سٹاک ماکیٹ کو ملکی معیشت کی کارکردگی جانچنے کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔28 مئی 2021 کو پاکستان کی سٹاک ایکسچینج کا 100 انڈکس 4 سال کی بلند ترین سطح 47 ہزار 126 پوائنٹس پر بند ہوا۔ اس سے قبل 3 اگست 2017 کو مارکیٹ 47 ہزار کی سطح پر بند ہوئی تھی۔ حکومت کی جانب سے بروقت کیے جانے والے اقدامات نے معیشت پر مثبت اثرات چھوڑے جس کے باعث پاکستان سٹاک مارکیٹ ریکارڈ اضافے کے ساتھ 48000 پوائنٹس کی نفسیاتی سطح کو عبور کر گئی۔

پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں مختص کی گئی رقم

پاکستان تحریک انصاف نے رواں مالی سال 2021 میں ملک میں ترقیاتی مقصد کیلئے مختص پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام یا پی ایس ڈی پی کیلئے 650 ارب روپے مختص کیے تھے۔ تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد ترقیاتی کاموں کو اہمیت دینے پر زور تو دیا،اور حکومت میں آنے کے بعد پی ایس ڈی پی کو 750 ارب روپے سے 800 ارب روپے پر لے گئی۔ البتہ مالی سال 2019 میں تحریک انصاف حکومت پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کیلئے مختص کیے جانے والے 800 ارب روپے مختص کیے البتہ صرف 677 ارب روپے ہی خرچ کر سکی۔ اسی طرح مالی سال 2020 حکومت کی جانب سے پی ایس ڈی پی کیلئے 701 ارب روپے مختص کیے گئے جس میں سے صرف 644 ارب ہوئے ہی خرچ کیے جا سکے۔ موجودہ مالی سال 2021 میں حکومت نے ترقیاتی پروگراموں کیلئے مختص کی جانے والی رقم میں کٹوتی کرتے ہوئے پی ایس ڈی پی کو 650 ارب روپے پر لے گئی۔ وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق حکومت 21 مئی 2021 تک پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں سے صرف 565 ارب روپے ہی خرچ کر سکی۔ وزارت منصوبہ بندی کے جاری اعدادوشمار کے مطابق پی ایس ڈی پی کے تحت نیشنل ہائی وے اتھارٹی کیلئے مجموعی طور پر مختص کردہ 118.7 ارب روپے میں سے 115 ارب روپے، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کیلئے 49.7 ارب روپے، واٹر ریسورسز ڈویژن کیلئے مختص کیے گئے 81.2 ارب روپے میں سے 70.6 ارب روپے،نیشنل ہیلتھ سروسز کیلئے 14.5 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کی مد میں مختص کیے گئے جن میں سے 12.7 ارب روپے خرچ کیے گئے، سائنس اینڈ ٹیکنالوجیکل ریسرچ ڈویژن کیلئے 4.4 ارب روپے مختص کیے گئے جن میں سے 2.5 ارب روپے ادا کیے گئے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کو مجموعی طور پر 29.4 ارب روپے کے مختص کردہ فنڈز میں سے 28.1 ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ مزید برآں حکومت نے آزاد جموں اینڈ کشمیر کیلئے ترقیاتی پروگرام کے تحت مختص کردہ 27.4 ارب روپے میں سے 23.3 ارب روپے اور گلگت بلتستان میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص کردہ 25 ارب روپے میں سے 13.6 ارب روپے جاری کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت کی جا نب سے ریلویز ڈویژن کو ترقیاتی منصوبوں کیلئے 24 ارب روپے میں سے 16.4 ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں جبکہ کیبینٹ ڈویژن کیلئے مجموعی طور پر مختص کردہ 47.8 ارب روپے میں سے 24.1 ارب روپے ادا کیے جا چکے ہیں۔

دفاعی اخراجات کا گزشتہ تین سالوں کا تقابلی جائزہ

وہ بجٹ جو کوئی ریاست اپنی حفاظت کیلئے مسلح افواج ، آرمی ،نیوی اور ایئر فورس پر خرچ کرتی ہے، اسے دفاعی بجٹ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کو وفاعی اعتبار سے جن حالات کا سامنا ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے پہلے دور حکومت میں ملک کا دفاعی بجٹ 1137 ارب روپے تھا جو اس وقت ملکی جی ڈی پی کا 2.8 فیصد تھا۔ گزشتہ مالی سال 2020 میں ملکی دفاعی بجٹ میں 8 فیصد اضافہ کر کے اسے 1227 ارب روپے کر دیا گیا۔ جس میں سے 1213 ارب روپے خرچ ہوئے۔ رواں مالی سال 2021 میں دفاعی بجٹ کو 5 فیصد اضافے کے ساتھ 1289 ارب پر کر دیا گیا، جو پاکستان کی جی ڈی پی کا 2.7 فیصد ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کا دفاعی بجٹ ملک کے کل اخراجات کا 17.67 فیصد ہے۔ تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے ، تاہم فوجی جوانون پر اٹھنے والے اخراجات دیگر ممالک کی نسبت کم ہیں۔ مثلاً امریکا میں ہر فوجی جوان پر 3 لاکھ 92 ہزار ڈالر ، بھارت میں 42 ہزار ڈالر جبکہ پاکستان میں ہر فوجی جوان پر صرف ہونے والی رقم 12 ہزار 500 ڈالر ہے۔

بیروزگاری

پاکستان کے ادارہِ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2018 میں پاکستان کی کل لیبر فورس کی تعداد تقریباً 6 کروڑ 55 لاکھ ، جبکہ اس وقت بیروزگاری کا تناسب 5.8 فیصد تھا۔ اداراہ شماریات کے مطابق کورونا وباء سے قبل ملک میں روزگار افراد کی تعداد تقریباً 5 کروڑ 57 لاکھ تھی ، تاہم کورونا وباء کے باعث لگنے والا لاک ڈاؤن اس میں 22 فیصد کمی کر کے روزگار افراد کی تعداد تقریباً 3 کروڑ 50 لاکھ پر لے گیا۔ تاہم کورونا وباء کے باعث لگنے والا لاک ڈاؤن سے بیروزگاری میں مزید 22 فیصد اضافہ ہوا جس سے روزگار افراد کی تعداد کم ہو کر 3 کروڑ 50 لاکھ کو پہنچ گئی۔ ناصرف یہ بلکہ لاک ڈاؤن کے دوران 37 فیصد یعنی تقریباً 2 کروڑ 6 لاکھ افراد بے روز گار ہوئے جبکہ 12 فیصد یعنی تقریباً 70 لاکھ افراد کو تنخواہوں میں کٹوٹی کا سامنا کرنا پڑا۔ کورونا لاک ڈاؤن نے سب سے زیادہ نقصان روزانہ اجرت سے منسلک روزگار افراد کا کیا۔ساتھ ہی بیروز گاری کا سامنا کرنے والے 74 فیصد افراد کا تعلق ان فارمل سیکٹر سے تھا۔ کوروبا وباء کے باعث حکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے اثرات کا اگر موازنہ کیا جائے تو کنسٹرکشن سیکٹر سے منسلک 80 فیصد افراد یا تو بیروزگار ہوئے یا پھر ان کو تنخواہوں میں کٹوٹی کا سامنا کرنا پڑا، اسی طرح مینوفیکچرنگ میں 72 فیصد، ٹرانسپورٹ میں 67 فیصد جبکہ ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر سے منسلک 63 فیصد افراد یا تو بیروزگار ہوئے یا پھر انہیں اپنی تنخواہوں میں کٹوٹی کا سامنا کرنا پڑا۔ لاک ڈاؤن کے اثرات سے نمٹنے کیلئے حکومت کی جانب سے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام متعارف کرایا گیا جس کے تحت تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ خاندان کو 12 ہزار روپے کی ادائیگی کی گئی۔ ساتھ ہی مالی سال کے دوران معاشرے کے کمزور افراد کیلئے مزید 208 ارب روپے بھی رکھے جس کا مقصد ملک کے 55 ملین بیروز گار افراد کی مدد کرنا تھا۔ اس کے جانب سے بروقت اقدامات کیے جانے والے لاک ڈاؤن میں نرمی کے باعث روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کے تقریباً 5 کروڑ 25 لاکھ افرادبرسرِ روز گار ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2015 میں پاکستان کی 24.3 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی تھی ، تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کورونا وباء اور معاشی سست روی کے باعث اب 40 فیصد آبادی کے غربت سے لکیر سے نیچے ہونے کا اندیشہ ہے۔ اگر آئی ایم ایف کا یہ اندیشہ سچ ثابت ہو گیا تو ملک میں غربت لکیر سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد 8 کروڑ سے تجاوز کرنے کا بھی خدشہ ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2019 میں پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 4.1 فیصد تھی جو 2020 میں 4.5 پر پہنچ گئی، اور اب سال 2021 میں ملکی بیروزگاری کی شرح 5.1 فیصد تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر

تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے قبل جون 2018 میں مارکیٹ میں فی ڈالر 121 روپے کا تھا۔ تاہم حکومت کے برسراقتدار میں آنے تک اگست 2018 میں مارکیٹ میں فی ڈالر 124 روپے تک جا پہنچا۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے باعث روپیہ اپنی قدر مزید کھوتا گیا اور جون 2019 تک مارکیٹ میں فی ڈالر 163 روپے ریکارڈ ہوا۔ یوں حکومت کے ایک سال کے دوران ہی روپے کی قیمت میں 39 روپے کی کمی ہوئی۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہونے کے سبب ملکی درآمدات مہنگی ہوئیں اور ساتھ ہی ملک میں مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ حکومت روپے کی قدر میں کمی کا اصل مجرم ماضی کی حکومت کو قراردار دیتے ہوئے یہی مؤقف اپناتی رہی کہ ماضی میں ڈالر کی قیمت میں کمی مصنوعی طریقے سے کی جا رہی تھی جبکہ موجودہ حکومت کے دوران ڈالر کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ مارکیٹ کے اصولوں کے تحت ہو رہا ہے۔البتہ مالی سال 2020 میں کوروبا وباء کے باعث معاشی سست روی ہونے پر روپے کی قدر میں ایک مرتبہ پھر کمی دیکھنے میں آئی جس کے نتیجے میں جون 2020 میں مارکیٹ میں فی ڈالر 168 روپے پر آن پہنچا۔

رواں مالی سال کے دوران حکومت کی جانب سے نافذ لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کے باعث ملکی معاشی صورتحال میں بہتری دیکھنے میں آئی جس کا براہ راست اثر روپے کی قیمتوں میں پڑا اور روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ استحکام دیکھنے میں آیا۔ البتہ رواں مالی سال 2021 میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا۔مالی سال 2021 کی بات کی جائے تو پاکستانیوں کی جانب سے ملک بھیجی جانے والی رقوم ماہانہ دو ارب ڈالر سے زائد رہیں جس کے باعث ملکی ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ رواں مالی سال میں حکومت کی جانب سے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ نامی سکیم متعارف کرائی گئی جس کے وجہ سے ملک میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ساتھ ہی کورونا وباء کے باعث لگنے والے عالمی لاک ڈاؤن نے دنیا بھر کی معیشت میں سست روی کا رجحان پیدا کیا جس کا سیدھا اثر امریکی ڈالر پر پڑا۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عالمی معاشی سست روی نے امریکی ڈالر کی قیمت کو نیچے لیجانے میں بہت مدد فراہم کی۔ تحریک انصاف کے تقریباً تین سالہ دورِ حکومت میں روپے کی قدر کا جائزہ لیا جائے تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 27 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

نوجوانوں کو روز گار کی فراہمی

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے دورِ اقتدار کے دوران ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا اعلان کیا جبکہ مزید 4 لاکھ افراد کو ہنرمند تربیت دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس سلسلے میں حکومت نے اکتوبر 2019 کو "کامیاب جوان پروگرام " کا افتتاح کیا جس کے تحت نوجوانوں کو 10 ہزار روپے سے 50 لاکھ روپے تک کے قرض آسان قسطوں پر دینے کا اعلان کیا گیا۔ نوجوانوں میں اس پروگرام کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کامیاب جوان پروگرام میں قرضوں کی حد کو 50 لاکھ روپے سے بڑھا کر ڈھائی کروڑ روپے کر دیا گیا۔ ناصرف یہ بلکہ حکومت نے قرضوں پر سود کی شرح کو 6 اور 8 فیصد سے کم کر کے 3 اور 4 فیصد بھی کر دیا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈار کے مطابق مئی 2021 تک 10 ہزار افراد کو کامیاب جوان پروگرام کے تحت ساڑھے 8 ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ عثمان ڈار کے مطابق وفاقی حکومت نے سندھ کے نوجوانوں کیلئے کامیاب جوان پروگرام کے تحت 10 ارب روپے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق مئی 2021 تک حکومت کامیاب جوان پروگرام کے تحت 1.3 ارب روپے قرض اور 1.4 ارب روپے کی رقم سکل سکالرشپ پروگرام کے تحت سندھ کے نواجوانوں میں تقسیم کر چکی ہے۔

وزیر خزانہ شوکت ترین کے کابینہ میں شامل ہونے کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی بار کامیاب جوان پروگرام کے تحت نوجوانوں کیلئے قرض کی حد کو 5 کروڑ تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ مئی 2021 میں وزیراعظم عمران خان کی طرف سے نوجوانوں کیلئے دو نئے پروگرامز لانے کا اعلان کیا گیا جس میں نوجوانوں کیلئے روزگار کیلئے 50 ہزارسکالر شپس ہائر ٹیکنالوجیز کیلئے دی جائیں گی جبکہ ایک لاکھ 70 ہزار سکل ایجوکیشن کیلئے سکالر شپس دی جائیں گی تاکہ نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جا سکے۔ وزیراعظم عمران خان کے مطابق ان تمام منصوبوں کیلئے حکومت کی جانب سے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔