لاہور: (ویب ڈیسک) مالیاتی امور کے تجریہ کاروں کے مطابق دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ متعین کرتی ہے اور یہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک کی معیشت میں کتنے ڈالرز دستیاب ہیں اور ملک میں ان کی مانگ کتنی ہے، ڈالر کی قدر اس وقت بڑھ جاتی ہے جب کسی معیشت میں اس کی مانگ بڑھتی ہے مگر دوسری جانب رسد گھٹ جاتی ہے۔پاکستان میں معاملہ تھوڑا مختلف ہے اور یہاں ڈالر کی قدر کا تعین دو طرح ہوتا ہے۔
اول انٹر بینک مارکیٹ جہاں بینک آپس میں ڈالر کی بڑے پیمانے پر خرید و فروخت کرتے ہیں اور یہاں کی قیمت کو ڈالر کا انٹر بینک ریٹ کہا جاتا ہے جبکہ دوسری اوپن مارکیٹ ہے جہاں سے عام لوگوں کی ڈالر کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔
حکومت اور سٹیٹ بینک ڈالر کی قدر متعین کرنے کے معاملے میں اوپن مارکیٹ میں دخل اندازی کرتے ہیں یہ فیصلہ کرنے کیے لیے کہ اس کی قیمت کو ایک وقت میں کتنا ہونا چاہیے۔
ماہر معاشیات اور اکنامک ایڈوائزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک جیسا کے پاکستان جہاں مارکیٹ چھوٹی ہے اور روزانہ ڈالر کی ٹریڈ صرف چھ سے سات ملین ڈالر ہے وہاں حکومتوں کو اوپن مارکیٹ کے معاملات میں دخل اندازی کرنا پڑتی ہے۔
چھوٹے حجم کی مارکیٹ میں اگر ڈالر کی قدر کا تعین اوپن مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے تو لوگ ڈالر کے ساتھ کھلواڑ شروع کر دیتے ہیں اور مصنوعی صورتحال تخلیق کر کے ڈالر کی قدر اثر انداز ہونا شروع کر دیتے ہیں اور اس موقع پر سٹیٹ بینک کو مداخلت کرنی پڑتی ہے تاکہ کسی بھی ابنارمل صورتحال کا بندوبست کیا جائے تاکہ ایکسچینج ریٹ پر کسی قسم کا دباؤ نہ پڑے۔
جبکہ پاکستان میں حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود رواں ہفتے پاکستان کی اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قدر 148 روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی جس کے بعد حکومت نے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔