لندن: (روزنامہ دنیا) برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے پاکستان کی اوپن مارکیٹ میں ڈالر نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ اس کی طلب میں اضافہ اور رسد میں کمی ہے، خراب ہوتی معاشی صورتحال لوگوں کو ڈالرز ذخیرہ کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔
ماہر معاشیات اور اکنامک ایڈوائزری کمیٹی کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق ترقی پذیر ممالک جیسا کہ پاکستان جہاں مارکیٹ چھوٹی ہے اور روزانہ ڈالر کی ٹریڈ صرف 60 سے 70 لاکھ ڈالر ہے وہاں حکومتوں کو اوپن مارکیٹ کے معاملات میں دخل اندازی کرنا پڑتی ہے۔ چھوٹے حجم کی مارکیٹ میں اگر ڈالر کی قدر کا تعین اوپن مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے تو لوگ ڈالر کے ساتھ کھلواڑ شروع کر دیتے ہیں اور مصنوعی صورتحال تخلیق کر کے ڈالر کی قدر پر اثر انداز ہونا شروع کر دیتے ہیں، اس موقع پر سٹیٹ بینک کو مداخلت کرنا پڑتی ہے تاکہ کسی بھی ابنارمل صورتحال کا بندوبست کیا جائے تاکہ ایکسچینج ریٹ پر کسی قسم کا دباؤ نہ پڑے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق صورتحال کے اس نہج پر پہنچنے کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف ہے۔ حکومت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس قرض کے حصول کے لیے جانا ہے اور آئی ایم ایف کا کہنا ہے پاکستان کا ایکسچینج ریٹ کافی خراب ہے اور قرضے کے حصول سے قبل اس کو درست کیا جانا ضروری ہے۔ میرے خیال میں یقیناً آئی ایم ایف کی طرف سے کوئی نہ کوئی ٹارگٹ دیا گیا ہو گا کہ روپے کی قدر کیا ہونی چاہیے۔ انہوں نے بتایا جس تیزی سے سٹیٹ بینک نے گزشتہ مہینوں میں ریٹ ایڈجسٹ کیا ہے اس سے لگ رہا ہے کہ گاڑی چھوٹ رہی ہے اور آپ نے جلد از جلد اس میں سوار ہونا ہے اور ایسا کرتے ہوئے آپ افراتفری کا شکار ہو جاتے ہیں’ جبکہ عام حالات میں ایسا نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا روپے کی قدر بے تحاشہ کم کرنے کا سب سے بڑا نقصان قرضوں اور سود کی شرح میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے، گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے معاشیات کو دیکھ رہا ہوں مگر اتنی تیزی سے ایکسچینج ریٹ کوکبھی بڑھتے نہیں دیکھا۔
مالیاتی امور پر لکھنے والے خرم حسین نے کہا دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ متعین کرتی ہے اور یہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ کسی ملک کی معیشت میں کتنے ڈالرز دستیاب ہیں اور ملک میں ان کی مانگ کتنی ہے لیکن پاکستان میں معاملہ تھوڑا مختلف ہے اور یہاں ڈالر کی قدر کا تعین دو طرح ہوتا ہے۔ اول انٹر بینک مارکیٹ جہاں بینک آپس میں ڈالر کی بڑے پیمانے پر خرید و فروخت کرتے ہیں جبکہ دوسری اوپن مارکیٹ ہے جہاں سے عام لوگوں کی ڈالر کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ حکومت اور سٹیٹ بینک ڈالر کی قدر متعین کرنے کے معاملے میں اوپن مارکیٹ میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سٹیٹ بینک چپ چاپ تمام کمرشل بینکوں کو زبانی ہدایات جاری کر دیتا ہے کہ ایک مخصوص قیمت سے زائد پر وہ ڈالر کی خریداری مت کریں اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مخصوص قیمت پر پہنچ کر بینک خریداری بند کر دیتے ہیں اور اس سے قیمت بڑھنے سے رک جاتی ہے مگر اس کا نقصان بھی ہوتا ہے اور حکومت کے پاس ڈالر کے ذخائر کم ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا اوپن مارکیٹ میں بتایا جا رہا ہے کہ اس سلسلے میں کافی افراتفری ہے اور لوگ ڈالر خرید کر گھر میں رکھ رہے ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ آگے چل کر روپے کی قدر میں مزید کمی ہو گی۔