پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا بھی سامنا ہے، گزشتہ 8 ماہ کے دوران پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پچاس فیصد بڑھ کر 10.8 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جس کی وجہ بڑھتی درآمدات ہیں، معیشت کی شرح نمو 5 فیصد کے قریب ہے اور چینی فنڈنگ سے نئے پاور پلانٹس لگ رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر پر بڑھتے دباؤ کی وجہ سے حکام نے چار ماہ کے دوران گزشتہ ہفتے دوسری مرتبہ روپے کی قدر کم کی۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ اکنامکس کے سربراہ تراب حسین کے مطابق اس وقت پاکستان کی کیپٹل مارکیٹ میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، معیشت کی حالت یہ ہے کہ برآمدات بڑھنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق بنگلہ دیش کی معیشت اس وقت پاکستان سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ ماضی کا مشرقی پاکستان جوکہ 1971میں آزاد ملک بنا، اس کے زر مبادلہ کے ذخائر پاکستان کے مقابلے میں دوگنا سے زائد ہیں، برآمدات بھی کہیں زیادہ ہیں۔ بنگلہ دیش کے علاوہ کمبوڈیا بھی ٹیکسٹائل کی عالمی مارکیٹ میں پاکستان کیساتھ مسابقت کر رہا ہے۔ ایشیا پیسفک ریجن کے ملکوں میں نیوزی لینڈ اور قازقستان وہ ملک ہیں جن کی معیشتیں چھوٹی مگر زرمبادلہ کے ذخائر پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں۔
پاکستانی ذخائر میں کمی کا عمل رکنے کا امکان نہیں کیونکہ حکام گلوبل بانڈز فروخت کیلئے پیش کرنے کا ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائے جس کی وجہ سود کی عالمی شرح میں مسلسل اضافہ ہے۔ ان سائٹ سکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو زبیر غلام حسین کے مطابق مجوزہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم جس کا رواں مہینے اعلان متوقع ہے ، سے حاصل ہونیوالے زرمبادلہ کے باوجود ملکی ذخائر مزید کم ہونگے ۔ واشنگٹن کی کنسلٹنسی فرم آلبرائٹ سٹون برج گروپ کے جنوبی ایشیائی ڈائریکٹر عزیر یونس کے مطابق پاکستانی بحران کا حل کاروباری ماحول بہتر بنانے اور ایسی اصلاحات پر عمل درآمد میں ہے، جن سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو اور پاکستانی مصنوعات عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں۔