واشنگٹن : (ویب ڈیسک ) امریکا آئندہ چند ہفتوں میں سعودی عرب کے خلاف عائد کردہ اس پابندی کو ختم کرنے پر تیار ہو گیا ہے ، جس کے تحت اس نے سعودی عرب کیلئے جارحانہ ہتھیاروں کی فروخت کو روک دیا تھا۔
عرب میڈیا کے مطابق یہ پابندی امریکہ نے کئی سال تک جاری رکھنے کے بعد اب اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم اس بارے میں اس کے سوا کوئی تفصیل نہیں دی گئی کہ اس پابندی کے اٹھنے سے کئی قسم کے ہتھیاروں کی سعودی عرب کو فراہمی ممکن ہو جائے گی۔
عرب میڈیا کا بتانا ہے کہ امریکہ کی طرف سے سعودی عرب کے ساتھ اس پیش رفت کے بارے میں امریکی دفتر خارجہ اور وائٹ ہاؤس نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اس سے قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے جب امریکی صدارت سنبھالی تو انہوں نے خلیجی ممالک کے خلاف سخت لہجہ اور انداز اختیار کیا تھا، جوبائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم اقدام کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔
صدر جوبائیڈن نے ایرانی حمایت یافتہ یمنی حوثیوں کو پہلے سے دہشت گرد قرار دیے جانے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا تھا، اگرچہ عرب ملکوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی اور سعودی عرب کو جارحانہ ہتھیاروں کی فروخت روک دی تھی۔
سعودی عرب نے بھی اس صورت حال میں خطے میں اپنے فیصلے کے تحت مذاکراتی عمل شروع کرنے میں سہولت پیدا کی ، حتیٰ کہ حوثیوں کے ساتھ بھی براہ راست رابطے میں آگیا جو اس سے قبل سعودی عرب میں راکٹ داغ رہے تھے۔
تاہم اب امریکہ نے ایک جانب دوبارہ حوثیوں کو اسی فہرست میں شامل کر دیا ہے اور دوسری جانب سعودی عرب کو جارحانہ ہتھیاروں کی فروخت روکنے کی اپنی پالیسی کو واپس لینے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔
خطے میں امریکہ کو جس نئی صورت حال کا سامنا ہے اور امریکی صدر کو جس قسم کی انتخابی مہم کا امریکہ میں سامنا ہے اس کے پیش نظر بڑی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔
امریکہ یمنی حوثیوں کے خلاف علاقائی سطح پر ایک اتحاد چاہتا ہے جو یمن کے پڑوسی ملکوں کا ہو جس کا مقصد یمنی حوثیوں کے حملے روکنے میں کردار ادا کرنا ہو اور امریکہ کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو ریلیف دینا ہو۔
امریکہ کو عرب ملکوں کی علاقائی سطح پر زیادہ ضرورت پیش ہے، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بہت سارے عرب ملکوں نے امریکہ کی حوثیوں کے خلاف حملوں میں امریکہ کو وہ سہولت دینے سے گریز کیا ہے جو امریکہ چاہتا ہے۔