بغداد: (ویب ڈیسک) عراق میں بم دھماکے کے دوران 4 افراد جاں بحق ہو گئے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق عراق کے جنوبی حصے میں گزشتہ چند برسوں میں اس طرح کا یہ پہلا حملہ ہے۔عراقی سینیرعہدہ دار نے کہا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں پراس حملے میں ملوّث ہونے کا شُبہ ہے۔
عراقی فوج نے ابتدائی معلومات کے حوالے سے بتایا ہے کہ بصرہ میں دھماکا بڑے ہسپتال کے قریب ہوا ہے اور دھماکاخیزمواد ایک موٹرسائیکل کے ساتھ نصب کیا گیا تھا۔ فوری طور پر کسی گروپ نے اس بم حملے کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔
بصرہ کے گورنراسعدالدانی نے صحافیوں کوبتایا کہ دھماکے میں داعش کا ہاتھ کارفرما ہوسکتا ہے۔
رائٹرز نے عینی شاہد کے حوالے سے بتایا کہ پولیس اہلکاربم کی زد میں آنے والی منی بس میں سے جسمانی اعضاء جمع کر رہے تھے۔ اس منی بس کو دھماکے سے بری طرح نقصان پہنچا ہے۔سڑک پر ٹوٹے ہوئے شیشے اور خون ہر طرف پڑا تھا۔ بصرہ کے گورنر نے اس حملے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر تین دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔
ایک کارمکینک محمد ابراہیم نے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج اس دہشت گردانہ کارروائی کے بعد بصرہ کے لوگوں کو یقینی طور پرمحتاط رہنا چاہیے۔اس بم دھماکے کے بعد بصرہ آج غیرمحفوظ ہو گیا ہے۔ ابراہیم کی ورکشاپ دھماکے کی جگہ کے قریب ہی واقع تھی۔
اس سے قبل پولیس اور اسپتال کے ذرائع نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ 4 افراد جاں بحق جبکہ 20 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ بصرہ میں ماضی قریب میں بہت کم بم حملے ہوئے ہیں-اس شہر میں آخری بڑا حملہ 2017 میں ہوا تھا اور داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔حکام نے صوبہ بصرہ میں اپنی مضبوط گرفت برقرار رکھی ہوئی ہے۔اسی صوبے میں اوپیک کے رکن ملک عراق کے تیل کے بڑے ذخائر واقع ہیں اور وہ یہیں سے تیل برآمد کرتا ہے۔