انقرہ: (ویب ڈیسک) ترکی نے شمال مشرقی شام میں فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے، فضائیہ کی طرف سے سرحدی علاقے راس العین میں کردوں کے ٹھکانے پر بمباری کی گئی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ترکی کی جانب سے شمالی مشرقی شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے، فضائیہ کی جانب سے کردوں کے ٹھکانے پر بمباری بھی کی، ترکی اور شام کی سرحد سے ملحقہ ترک علاقوں میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ جب کہ جنگی جہاز بھی علاقے میں پرواز کر رہے ہیں۔
عرب خبر رساں ادارے کے مطابق ترکی کی فوج کی کارروائی کے دوران دو شہریوں کے مارے جانے کی اطلاعات ملی ہیں۔
برطانوی خبر سراں ادارے رائٹرز کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا ہے اور یہ دہشت گردوں کی راہداری کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔
یاد رہے کہ ترکی کی جانب سے کارروائی کے خدشے کے باعث شمال مشرقی شام میں کردوں کے زیرِ اثر مقامی انتظامیہ نے ترکی سے متصل سرحد پر جنگجوؤں کی تعیناتی شروع کر دی تھی۔
اُدھر ترک فوج کے افسر نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ شام میں فوجی کارروائی کا آغاز فضائی بمباری سے کر دیا گیا ہے جبکہ علاقے میں ٹینکوں اور پیدل فوج کے ذریعے بھی کارروائی کی جائے گی۔ عالمی قوتیں ترکی کے اس اقدام سے قبل اس خدشے کا اظہار کر رہی تھیں کہ اس سے شام میں گزشتہ آٹھ سال سے جاری جنگ ایک نیا رخ اختیار کر لے گی۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان نے کارروائی سے قبل روس کے صدر ولادی میر پوٹن کو اعتماد میں لیا ہے۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ اس کارروائی کے بعد خطے میں امن و استحکام لانے میں مدد ملے گی۔
دوسری طرف شمال مشرقی شام پر اثر رکھنے والی کرد انتظامیہ نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ ترکی کی اس مہم جوئی سے اس علاقے میں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
کرد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ترکی کی فوج کے خلاف مزاحمت کے لیے جنگجو گروپ سرحد کی جانب پیش قدمی جاری رکھیں گے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ ہر صورت میں اپنے علاقے کا دفاع کریں گے۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کی ترجمان فہرطین التن نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کارروائی کے لیے انقرہ کا ساتھ دیں۔ ان کے بقول اس کارروائی میں دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے مضموں میں فہرطین التن کا کہنا تھا کہ ترکی شمالی مشرقی شام کے عوام کو کرد جنگجوؤں کے تسلط سے آزادی دلانا چاہتا ہے۔
خیال رہے کہ ترکی شام میں کرد جنگجو گروہوں کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ ترکی چاہتا ہے کہ ترکی کی سرحد سے متصل شام کے اس علاقے میں 32 کلومیٹر تک ایک ’سیف زون‘ بنایا جائے۔ ترکی شام جنگ کے بعد ترکی میں مقیم 35 لاکھ پناہ گزینوں میں سے 20 لاکھ کو یہاں آباد کرنا چاہتا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز قبل شمال مشرقی شام سے اپنی فوج نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس کے بعد ترکی کے لیے راہ ہموار ہو گئی تھی کہ وہ شمالی مشرقی شام میں کرد جنگجو گروہوں کے خلاف کارروائی کر سکے۔
امریکہ ماضی میں ان جنگجو گروہوں کی حمایت کرتا آیا ہے جو اس کے بقول شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف سرگرم ہیں۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو یہ تنبیہ بھی کی تھی کہ اگر اس نے شام میں 32 کلومیٹر کے علاقے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو امریکہ اس کی معیشت کو تباہ کر دے گا۔
امریکی دھمکی کے باوجود ترک حکام کا کہنا تھا کہ وہ کرد جنگجوؤں کے خاتمے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ گزشتہ چند روز سے ترکی کی فوج اس علاقے میں جمع ہو رہی تھیں جس کے بعد کرد جنگجوؤں نے بھی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔