لاہور: (ویب ڈیسک) یورپی یونین اور برطانیہ کے سیاستدانوں نے بھی مظلوم کشمیریوں کے لیے آوازیں اٹھا دیں اور کہا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے پر تشویش ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کی ممبران ارونا ون ویز، شفیق محمد، فِل بینن، جوڈتھ بینٹنگ، کرس ڈیوس، انتھونی ہوک، مارٹن ہاروڈ، لوسی نتھاسنگا اور شیلا رچی نے یورپی پارلیمنٹ حکام کو ایک خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد کشمیریوں کو محصور کر رکھا ہے۔
ممبران کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر کلسٹر بمباری کی اطلاعات سامنے آئی ہیں یہ بہت خوفناک صورتحال ہے، اور جنیوا کنونشن کی خلاف بھی ورزی ہے، بگڑتی صورتحال پر ہم سب کو تشویش ہے، مقبوضہ وادی میں عالمی اخبارات کی رپورٹس کے مطابق ٹیلیفون، انٹر نیٹ، کیبل سمیت دیگر ضروریات زندگی کی سہولتیں موجود نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین انسانیت پر یقین رکھتی ہے، اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی عوام کے لیے آواز بلند کی جائے ورنہ یہ صورتحال کسی بھی وقت خطرناک ہو سکتی ہے۔
ایک اور یورپی یونین پارلیمنٹ کی ممبر جولی وارڈ کا کہنا ہے کہ بھارت کے اقدام کی سختی مذمت کرتے ہیں، آرٹیکل 370 اور دفعہ 35 اے پر یہ اقدام ناقابل قبول ہے، اس سے کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ مجھے بہت افسوس ہوا جب پتہ چلا کہ مودی سرکار کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔ بھارت کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔
جولی وارڈ کا مزید کہنا تھا کہ جب مھے پتہ چلا کہ بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر کلسٹر بموں کے ذریعے حملہ کیا اس وقت بھی پریشان ہو گئی تھی، ان حملوں میں دو سول افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے جبکہ گیارہ کے قریب شدید زخمی بھی ہوئے تھے، نئی دہلی کی جانب سے یہ اقدام بھی جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کی ممبر کا کہنا تھا کہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں مسلسل لاک ڈاؤن جاری ہے، صحافت پر قدغن لگائی گئی ہے، پانچ روز سے اخبارات کی ترسیل بند ہے، انٹرنیٹ، ٹیلی کمیونیکیشن سمیت دیگر سہولتیں بند ہیں یہ بہت خوفناک قدم ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یورپی یونین سمیت عالمی برادری کو آگے آنا ہو گا اور پاکستان بھارت سے اس پر بات کرے اور مذاکرات شروع کروانے میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ کشمیری عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ کیونکہ اس خطے کی صورتحال کسی بھی وقت خراب ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف برطانوی لیڈز ویسٹ پارلیمنٹ کے ممبر ریچل ریوز بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کی مذمت کرتے ہیں، یہ اقدام کسی صورت بھی ناقابل قبول ہے۔
سیکرٹری دفاع کو ایک خط میں انہوں نے لکھا کہ بھارت نے ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں کو مقبوضہ وادی میں بھیجا ہے، مقبوضہ وادی میں انٹر نیٹ، ٹیلیفون کی سہولیات بند ہیں، وہاں کرفیو لگ چکا ہے، حریت رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے، ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ احتجاج کرنے والوں پر سیدھی فائرنگ کی جا رہی ہے۔
ریچل ریوز کا کہنا تھا کہ بھارت کی طرف سے عالمی قوانین سمیت اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے منافی کام کیا جا رہا ہے، برطانوی حکومت کو اخلاقی طور پر کوئی اقدام اٹھانا چاہیے، مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کرے۔ ہم اس بحران پر کسی صورت پر الگ نہیں رہ سکتے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم نا انصافی کیخلاف آواز بلند کریں۔
برطانوی ممبر پارلیمنٹ کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کیے جانے والے بل کی مذمت کرتے ہیں۔ اس بل سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہو گئی ہے۔
دوسری طرف برطانوی پارلیمنٹ کے ایک اور ممبر عمران حسین کا کہنا ہے کہ مودی سرکار عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے، اس سے مقبوضہ وادی سمیت خطے میں حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں، برطانوی حکومت اور عالمی اداروں کو آگے آنا چاہیے اور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد دنیا بھر سے رد عمل آنا شروع ہو گئے ہیں، پاکستان نے سفارتی محاذ پر متحرک ہو کر متعدد ممالک کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے، سب سے پہلے چین کی طرف سے بڑا بیان آیا تھا کہ لداخ سمیت مقبوضہ کشمیر پر بھارتی فیصلے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے ملائیشیا، ترکی، بحرین سمیت دیگر ممالک کو آگاہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے بھی بھارتی اقدام کی مذمت کی ہے۔