ایمنسٹی انٹرنیشنل کا سعودی عرب میں‌5 سماجی کارکنوں کو سزائے موت نہ دینے پر زور

Last Updated On 24 August,2018 01:06 pm

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) سعودی عرب میں‌ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے رضاکاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر نے زیر حراست 5 سماجی کارکنان کے لیے سزائے موت کی سفارش کی ہے جن میں ایک خاتون سماجی کارکن بھی شامل ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب پر5 سماجی کارکنوں کو سزائے موت نہ دینے پر زور دیا ہے.

فرانسیسی خبر رساں ادارے  اے ایف پی  کے مطابق ان قید ملزمان میں اسرار الغمغام نامی خاتون شامل ہیں، جن پر سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں مظاہروں کو بھڑکانے کا الزام ہے اور وہ ممکنہ طور پر سزائے موت پانے والی پہلی خاتون سماجی کارکن ہوں گی۔ اس حوالے سے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مشرقِ وسطیٰ میں مہمات کی ڈائریکٹر سماح حدید کا کہنا تھا کہ ’ہم سعود ی عرب کے حکام پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس ارادے کو ترک کردے‘۔

تاہم اس بارے میں جب سعودی عرب کے سرکاری عہدیداروں سے پوچھا گیا تو انہوں نے فوری طور کسی قسم کا جواب دینے سے انکار کردیا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اسرار الغمغام اہل تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی ایک معروف سماجی کارکن ہیں، جو سال 2011 میں سعودی عرب کے مشرقی صوبوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے حوالے سے دستاویزات تیار کی تھیں، انہیں دسمبر 2015 میں ان کے شوہر کے ہمراہ رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ سماح حدید کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ اسرار الغمغام کو سزائے موت دینے سے دیگر سماجی کارکنان کو ایک ڈراؤنا پیغام جائے گا کہ دوسرے کارکنوں کو ان کے پرامن احتجاج اور انسانی حقوق کی سرگرمیوں کے لیے اسی طرح نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرار الغمغام کے خلاف عائد الزامات کی نوعیت مضحکہ خیز اور واضح طور پر سیاسی ہے تاکہ مخالفین کو خاموش کروایا جاسکے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق رواں برس مئی سے اب تک انسانی حقوق کے کم از کم 12 کارکنان کو زیر حراست لیا گیا جس میں 8 خواتین بھی شامل ہیں، زیر حراست زیادہ تر کارکنان میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی اور ملک میں نافذ مردانہ سربراہی کے قانون کی مخالفت کرنے والے افراد شامل ہیں۔ واضح رہے کہ قدامت پرست سمجھے جانے والے ملک سعودی عرب میں سزائے موت دینے کی شرح دنیا کے بیشتر ممالک سے زیادہ ہے جس میں دہشت گردی، قتل، ریپ، مسلح لوٹ مار اور منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث مجرمان کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔

تاہم انسانی حقوق کے ماہرین کی جانب سے بارہا ملک میں مقدمات کی کارروائی میں شفافیت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، دوسری جانب حکومت کا اس بارے میں موقف ہے کہ سزائے موت دینے سے جرائم کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔