لاہور: (روزنامہ دنیا) امریکی صدر نے پہلی بار اوپیک کو اپنے ٹویٹ میں مخاطب کیا ان کا کہنا تھا سمندر میں تیل سے لدے بحری جہازوں سمیت ہر جگہ اتنی بڑی مقدار میں تیل کے ذخیرے ہیں مگر اوپیک نے تیل کی قیمتوں میں مصنوعی طور پر اضافہ کر کے انہیں بلند ترین سطح پر پہنچادیا ہے، یہ ٹھیک نہیں، یہ قطعی ناقابل قبول ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس ٹویٹ سے کچھ پہلے سعودی عرب کے متعلقہ حکام نے کہا تھا کہ تیل کی عالمی سپلائی میں جو بہت زیادہ ہوگئی تھی 3 برس تک کمی کرنے کا جو ہدف مقررکیا گیا تھا ہم اس سے بہت دور ہیں۔
سعودی عرب کے 3 حکام نے رائٹرز کو رواں ہفتے کے شروع میں بتایا کہ انہیں بہت خوشی ہو گی اگر تیل کی عالمی قیمتیں 80 یا 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائیں۔ رواں ہفتے کے دوران تیل کی قیمتیں 2014 کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں، ممکنہ طور پر اوپیک کے رکن ممالک قیمتوں کو اس بلند سطح پر برقرار رکھنے یا قیمتوں میں اضافے کے رجحان کو جاری رکھنے کیلئے رواں سال کے آخر تک سپلائی کو کم رکھنے کی کوشش کریں گے تاکہ طلب و رسد کا توازن قیمتوں میں اضافے کیلئے مددگار ثابت ہوسکے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق صدر ٹرمپ نے ایران اور وینزویلا پر اس حوالے سے جو جارحانہ نکتہ چینی کی تھی، اس نے بھی تیل کی قیمتوں میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا۔ اوپیک کے سیکرٹری جنرل محمد بارکندو نے کہا سپلائی میں کمی کے معاہدے کی وجہ سے تیل کی عالمی قیمتوں کو غیر معمولی کمی سے بچانا ممکن ہوا، انہوں نے کہا اب صورتحال پائیدار بنیادوں پر قیمتوں کے استحکام کی جانب جارہی ہے، انہوں نے کہا یہ بات نہ صرف تیل پیدا کرنیوالے ممالک بلکہ صارفین اور عالمی معیشت کے بھی حق میں ہے۔ اوپیک ممالک کا اجلاس رواں سال جون میں متوقع ہے ، اس اجلاس میں روس سمیت تمام متعلقہ ممالک شرکت کریں گی۔
ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا کہ جون 2017 کے دوران تیل کی سپلائی میں کمی کا جو فیصلہ کیا گیا تھا اس کے کیا اثرات ہوئے؟ آر بی سی کے کموڈیٹی اسٹرے ٹیجسٹ مائیکل ٹران نے کہا یہ ایک مشکل صورتحال ہے، ہمیں دیکھنا ہے کہ اوپیک اپنی راہ عمل یا حکمت عملی میں تبدیلی کے حوالے سے اب کیا اقدامات کرتی ہے؟
رواں ہفتے برینٹ (Brent LCOc 1) اور یو ایس ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ(WTI) کے تحت خام تیل کے مستقبل کے سودوں کی قیمت نومبر 2014 کے بعد سب سے زیادہ ہو گئی۔ برینٹ Brent کی قیمت 74.75ڈالر اور یو ایس کروڈ کی قیمت 69.56 ڈالرفی بیرل ہو گئی۔ اس اضافے کے نتیجے میں ایندھن (فیول) کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں، گیسولین کی قیمت بڑھ کر 2.75 ڈالر فی گیلن ہو گئی، صارفین کی ایک تنظیم کے مطابق صرف ایک سال کے اندر یہ گیسولین کی قیمت میں 30 سے زائد اضافہ تھا۔