لاہور: (خاور نیازی) دنیا کے اندر ’’ڈیجیٹل دنیا‘‘ کے نام سے ایک نئی دنیا کا احیاء جس تیزی سے ہماری روزمرہ زندگیوں میں داخل ہوا اس نے ہمیں ایسا سہل پسند اور اپنا عادی بنا دیا کہ ہمارے لئے اس نئی دنیا کی ''شہریت‘‘ اختیار کرنے کے سوا اور کوئی راستہ بچا ہی نہیں۔
اس سے قبل دنیا ایک ’’گلوبل ویلج‘‘ تھی لیکن اب ایک چھوٹی سی ڈیوائس (موبائل کی شکل میں) ہی ہماری دنیا ہے جو ہر وقت ہماری جیب میں یا پھر ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے، یہی چھوٹی سی ڈیوائس بنیادی طور پر ’’ڈیجیٹل ورلڈ‘‘ہے۔
کاغذی کرنسی اب قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے، پہلے پلاسٹک منی (کریڈٹ، ڈیبٹ کارڈ وغیرہ ) نے اس کی جگہ لی اور اب پلاسٹک منی بھی آئندہ کچھ سالوں میں قصہ پارینہ بن جائے گی کیونکہ جب آپ گھر بیٹھے بٹھائے اپنے تمام بل، تمام ادائیگیاں، اپنی شاپنگ آن لائن ڈیجیٹل طریقہ کار سے کر رہے ہوں گے تو کاغذی کرنسی کا کوئی جواز نہیں بنتا، ماسوائے ٹھیلے والے، پھیری والے یا پلمبر الیکٹریشن وغیرہ کی ادائیگیوں کیلئے۔
بات صرف ادائیگیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ’’دنیا‘‘ سکول کالجوں کے داخلوں سے شروع ہو کر آپ کے ویزے، پاسپورٹ، ہوائی ٹکٹ بلکہ اس سے بھی آگے تک، آپ کی جیب یا آپ کی مٹھی میں ہے۔
ڈیجیٹل ورلڈ کے شہری کون؟
ڈیجیٹل شہری وہ ہیں جو اپنی روزمرہ زندگی میں اپنی تعلیم، کاروبار، سیاست، لین دین یا تفریحی اوقات کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ ’’ڈیجیٹل شہری‘‘ کہلاتے ہیںخ جیسے کسی ملک کے ایک عام شہری کو اس ملک کی شہریت حاصل کرنے لئے اپنی شناخت اپنے ملک کے اداروں کو مہیا کرنا پڑتی ہے بالکل ایسے ہی ڈیجیٹل ورلڈ کی شہریت حاصل کرنے کیلئے بھی کسی بھی متعلقہ فرد یا افراد کو سب سے پہلے ای میل ایڈریس کیلئے سائن اپ کرنا پڑتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ غیر محسوس طریقے سے ہم سب رفتہ رفتہ اس نئی دنیا کی ’’شہریت‘‘ اختیار کرتے جا رہے ہیں بلکہ کر چکے ہیں، کچھ جزوی طور پر اور کچھ مکمل طور پر۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں شاید ہی کوئی فرد ڈیجیٹل ورلڈ کی ’’شہریت‘‘ سے محروم ہوگا، اگر ہوگا بھی تو آٹے میں نمک کے برابر۔ ڈیجیٹل شہریت دراصل آن لائن رابطہ، قابل اعتماد ذرائع کی تلاش، انسانی حقوق کے تحفظ ، وقت اور وسائل کی بچت کے ساتھ ٹیکنالوجی کا ذمہ دارانہ اور با عزت استعمال ہے۔
تکنیکی طور پر ڈیجیٹل شہریت ایک اصطلاح ہے جو صارفین کے درمیان ٹیکنالوجی کے مناسب اور ذمہ دارانہ استعمال کی وضاحت کے لئے استعمال ہوتی ہے، یہ کسی بھی آن لائن پلیٹ فارم پر بات چیت کرنے، تعاون کرنے اور مثبت انداز میں مہارتیں سکھانے کے ساتھ ساتھ ڈیٹا کی خلاف ورزیوں اور شناخت کی چوری کو روکنے کیلئے رازداری کے تحفظ اور حفاظتی اقدامات کے راستوں سے روشناس کراتی ہے۔
کسی بھی ریاست کی طرح، ڈیجیٹل شہری بھی ایک کمیونٹی یا معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، یہ ان ممبروں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کے ’’حصے‘‘میں رہنا چاہتے ہیں، جب ڈیجیٹل شہری اچھے اور پروقار انداز میں اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہیں تو انٹرنیٹ ان کیلئے ایک ایسا ذریعہ بن جاتا ہے جس سے وہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، ترقی کر سکتے ہیں اور اپنے مستقبل کو مزید مستحکم بنا سکتے ہیں۔
مائیکل ریبل( جس نے ایک لمبے عرصے تک ڈیجیٹل ورلڈ کیلئے کام کیا ) نے ڈیجیٹل صارفین کو ذمہ دار ڈیجیٹل شہری بننے کیلئے اس ٹیکنالوجی کے محفوظ اور ذمہ دارانہ استعمال کے تین رہنما اصول احترام، تعلیم اور تحفظ متعارف کرائے ہیں، گویا یہ ڈیجیٹل ورلڈ کا ایک ’’آئین‘‘ ہے جس پر عمل پیرا ہونا سب شہریوں پر لازم تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ سب کی فلاح بھی ان قوانین کی پاسداری میں ہے۔
ڈیجیٹل ورلڈ کا مستقبل کیا ہے؟
ڈیجیٹل ورلڈ میں جیسے انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا کردار بنیادی ہوتا ہے ایسے ہی کمپیوٹر سسٹم میں ’’ڈیٹا‘‘ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، جس طرح ہر ادارہ کمپیوٹر سسٹم پر انحصار کرتا ہے، اسی طرح کمپیوٹر سسٹم کا انحصار ’’ڈیٹا پروسسنگ‘‘ پر ہوتا ہےخ معلومات سے بھری دنیا کا ذرہ تصور کریں جہاں ایک سال میں تخلیق کردہ ڈیٹا 18کروڑ سے زائد لائبریریوں کو بھر سکتا ہے۔
اس دور میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہماری روزمرہ زندگیوں میں انٹرنیٹ لائف لائن بن چکا ہے، یہ انٹر نیٹ ہی ہے جس نے عالمی انسانیت میں 67 فیصد سے زائد لوگوں کو آپس میں جوڑ رکھا ہے، ڈیٹا لوگوں کی زندگیوں کا تانا بانا بن رہا ہے، اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ بنیادی ضروریات زندگی سے لے کر صحت کی خدمات کی تلاش اب صرف ایک ’’کلک‘‘ تک محدود ہوگئی ہیں۔
’’اسٹیٹسٹا‘‘، ڈیجیٹل ورلڈ کی معاونت کیلئے دنیا بھر کے مختلف شعبہ زندگی سے ڈیٹا اکٹھا کرنے والا ایک معتبر بین الاقوامی پلیٹ فارم ہے، اسٹیٹسٹا نے اب سے کچھ عرصہ پہلے ڈیجیٹل ورلڈ میں انٹر نیٹ کے استعمال کے اعداد و شمار جاری کئے ہیں جس سے یہ اندازہ کر لینے میں کوئی دو رائے نظر نہیں آتی کہ آنے والا دور مکمل طور پر ڈیجیٹل دور ہوگا، اسی رپورٹ میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ سال رواں کے آخر تک انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 5 ارب 30 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہوگی، جو دنیا کی کل آبادی کا 66 فیصد بنتا ہے۔
ان اعداد وشمار میں 4 ارب 95 کروڑ افراد سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ہیں، بالفاظ دیگر دنیا کی کل آبادی کا 61.4 فیصد حصہ دور حاضر میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کا ہے، اسی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جس رفتار سے ’’ڈیجیٹل شہریت‘‘ میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے مطابق آئندہ سال کے آخر تک انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 6 ارب سے تجاوز کر چکی ہوگی جو دنیا کی کل آبادی کا 75 فیصد بنتا ہے۔
اسٹیٹسٹا کے اس سال کے شروع میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق آئی ٹی کے شعبے پر عالمی اخراجات 2023ء میں 47 کھرب ڈالر کے مقابلے میں 2024ء میں 50 کھرب ڈالر بڑھنے کی توقع ہے، واضح رہے کہ یہ اخراجات انفارمیشن ٹیکنالوجی، پرسنل کمپیوٹر، ٹیبلٹ، موبائل فونز، پرنٹرز ، ڈیٹا سنٹر سسٹم، انٹر پرائز سافٹ وئیر اور کمیونیکیشن سروسز وغیرہ پر مشتمل ہیں۔
انٹرنیٹ پر 1 منٹ!
اسٹیٹسٹا نے اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف بھی کیا ہے کہ ایک انٹرنیٹ منٹ میں بہت کچھ ہوتا ہے، لاکھوں پیغامات، ای میلز اور متن بھیجے جاتے ہیں، ڈیٹا اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ ہوتا ہے، 2023ء کے انٹرنیٹ منٹ میں، دنیا بھر میں صارفین نے 24 کروڑ ای میلز بھیجے جہاں تک انٹر نیٹ کے استعمال کا تعلق ہے اس میں ایشیا 2 ارب 93 کروڑ افراد کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ یورپ کے صارفین کی تعداد 75 کروڑ ہے، چین، بھارت اور امریکہ انفرادی طور پر سب سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرانے والے ممالک میں سرفہرست ہیں۔
ان اعدادو شمار کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ڈیجیٹل ورلڈ نے انسانوں کے درمیان فاصلوں کا تاثر ہی ختم کر دیا ہے اور اب اگر کوئی چاہے بھی تو اس ’’دنیا‘‘ سے الگ تھلگ ہو کر نہیں رہ سکتا۔
خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔